بشارالاسد ملک سے فرار، باغی فوجیوں نے دمشق پر قبضہ کرلیا
شام کے باغیوں نے دمشق پر قبضہ کرلیا جبکہ شامی صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے۔
برطانوی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شامی صدر بشار الاسد طیارے پر سوار ہو کر نامعلوم مقام پر چلے گئے، دمشق کے امیہ چوک پر عوام جمع ہو رہے ہیں، لوگ فوج کے چھوڑے ہوئے ٹینکوں پر بھی چڑھ گئے ہیں، ہزاروں افراد نے مرکزی چوک میں جشن مناتے ہوئے آزادی کے نعرے لگائے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بشارالاسد کے صدارتی محافظ بھی ان کی معمول کی رہائش گاہ پر تعینات نہیں جس کے باعث ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ بشار الاسد فرار ہوچکے ہیں اور ان کی حکومت کا تختہ پلٹ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فوری طور پر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ جہاز میں کون سوار تھا، شام کے سب سے بڑے حزب اختلاف کے گروپ ہادی البحرا شامی کے سربراہ نے بھی اتوار کے روز اعلان کیا کہ دمشق اب ’بشار الاسد کے بغیر‘ ہے۔
الجزیرہ کے مطابق الیوشین 76 طیارہ جس کی فلائٹ نمبر سیریئن ایئر 9218 تھی، دمشق سے اڑان بھرنے والی آخری پرواز تھی، پہلے اس نے مشرق کی طرف اڑان بھری، پھر شمال کی طرف مڑ گیا اور چند منٹ بعد حمص کے گرد چکر لگاتے ہی اس کا سگنل غائب ہو گیا۔
الجزیرہ کے مطابق شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا ہے اور الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔
مسلح اپوزیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ظالم بشار الاسد بھاگ گیا ہے،ہم دمشق کو جابر بشار الاسد سے پاک قرار دیتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ شامی باغی فوجیوں کی دارالحکومت دمشق کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری تھی، اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ شامی صدر بشار الاسد کی کابینہ کی بڑی تعداد ملک سے فرار کیلئے فوجی ایئر بیس میں جمع کل رات سے جمع تھی۔
سی این این نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد دمشق میں کہیں نہیں ہیں۔
شام کی موجودہ صورتحال خطرناک ہے، دوحہ فورم
سی این این کی رپورٹ کے مطابق شامی صدر کے دفتر کا سرکاری بیان تو یہ تھا کہ بشارالاسد دارالحکومت سے فرار نہیں ہوئے بلکہ شامی صدر کے دفتر نے بشارالاسد کی شہر چھوڑنے کی تردید کی تھی۔ لیکن صورت حال کے بارے میں جاننے والے ایک ذریعہ نے سی این این کو بتایا کہ اسد شہر کے کسی بھی ایسے مقام پر نہیں ہیں جہاں ان کی موجودگی کی توقع کی جا سکے۔
بشارالاسد کے صدارتی محافظ اب ان کی معمول کی رہائش گاہ پر تعینات نہیں ہیں، اگر اسد وہاں ہوتے تو محافظ بھی ہوتے، جس سے اس قیاس کو ہوا ملتی ہے کہ وہ دمشق سے فرار ہو چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق باغی فورسز کے پاس اسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس انٹیلی جنس نہیں ہے اور وہ اسے تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شامی صدر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کا پلان
عرب میڈیا کے مطابق شامی اسٹیک ہولڈرز نے بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کا پلان تیار کرلیا ہے، مجوزہ پلان میں اقتدار کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔
اس پلان کے تحت عبوری حکومت 9 ماہ کے اندر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔
ادھر ترک، ایرانی اور روسی وزرائے خارجہ کی دوحا میں ملاقات ہوئی، جس میں شامی حکومت اور باغی گروپوں سے فوری مذکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شام میں مقامی بغاوتیں شروع ہونے سے صدر بشارالاسد کی اقتدار پر گرفت کو شدید جھٹکا لگا ہے۔
شام میں بشارالاسد مخالف فورسز نے جنوبی شہر درعا پر قبضہ کیا، یہ ایک ہفتے میں شامی حکومتی فورسز کے ہاتھوں کھو جانے والا چوتھا شہر تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فوج نے ایک معاہدے کے تحت درعا سے دستبرداری پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے تحت فوج کے اہلکاروں کو دمشق کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) کے فاصلے پر محفوظ راستہ فراہم کیا گیا تھا۔
یہ اطلاعات شمالی شام میں تحریر الشام کی قیادت میں حُمص شہر کے مضافات تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے کے بعد سامنے آئی تھی۔
درعا پر قبضہ اس وقت ہوا جب شامی حکومت مخالف فورسز نے جمعہ کو دیر گئے حُمص کے مضافات تک پہنچنے کا دعویٰ کیا جو کہ دارالحکومت کو بحیرہ روم کے ساحل سے جوڑنے والا اسٹریٹجک شہر ہے۔
اس سے قبل جنگجوؤں نے ڈیرہ صوبے میں فوجی اڈے پر بھی قبضہ جمایا اور باغیوں کی حُمص کی جانب پیش قدمی جاری تھی۔ جس کے بعد اطلاع سامنے آئی کہ باغی فوجیوں نے حُمص پر بھی قبضہ کرلیا۔
ایران نے شام سے اپنے فوجی کمانڈروں اور اہلکاروں کا انخلا شروع کردیا
موجودہ حالات میں صدر بشار الاسد اور ان کے حامی روس اور ایران کے لیے مزید مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
واضح رہے شام کا ایک شہر حلب پہلے ہی باغیوں کے قبضے میں ہے۔ شمال مشرقی علاقے حلب میں موجود بشارالاسد مخالف فورسز تحریر الشام جس کو فری سیرین آرمی بھی کہا جاتا ہے، نے حالیہ دنوں میں تیزی سے پیش قدمی کی اور حما پر قبضہ کرلیا۔
اس سے چند گھنٹے قبل باغیوں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے صرف ایک دن کی لڑائی کے بعد اہم شہر حمص کا مکمل قبضہ کر لیا۔
مرکزی شہر سے فوج کے انخلا کے بعد حمص کے ہزاروں باشندے ’اسد چلا گیا، حمص آزاد ہے‘ اور ’شام زندہ باد اور بشار الاسد مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکلے۔
باغیوں نے جشن منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور نوجوانوں نے شامی صدر کے پوسٹر پھاڑ دیے۔
حمص کے زوال کے نتیجے میں باغیوں نے شام کے تزویراتی مرکز اور ایک اہم شاہراہوں کے سنگم اک کنٹرول سنبھال لیا، جس نے دمشق کو ساحلی علاقے سے الگ کر دیا جو اسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہے اور جہاں ان کے روسی اتحادیوں کا ایک بحری اڈہ اور فضائی اڈہ ہے۔
حمص کا قبضہ 13 سالہ تنازع میں باغی تحریک کی ڈرامائی واپسی کی ایک طاقتور علامت بھی ہے، حمص کے علاقوں کو کئی سال قبل باغیوں اور فوج کے درمیان شدید جنگ میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ لڑائی کے نتیجے میں باغیوں کو شکست ہوئی تھی اور انہیں زبردستی باہر نکال دیا گیا تھا۔
باغیوں کی سرکردہ جماعت حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے حمص پر قبضے کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ ’ہتھیار ڈالنے والوں‘ کو نقصان نہ پہنچائیں۔
حمص اسٹریٹجک اعتبار سے حما اور حلب سے زیادہ اہم ہے
حمص اسٹریٹجک اعتبار سے حما اور حلب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس جے مغرب میں وہ علاقے واقع ہیں جنھیں بشار الاسد کے خاندان کا گڑھ کہا جاتا ہے جبکہ اس کے جنوب میں شامی دارالحکومت دمشق واقع ہے۔
ہیئت تحریر الشام برسوں سے شمال مغربی صوبے ادلب میں اپنی طاقت کو بڑھا رہا تھا اور گذشتہ ہفتوں میں اس کی کامیابیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بشار الاسد حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
شامی باغی بشارالاسد کے محل پر قبضہ کرنے میں کامیاب
شامی فوج کی تنخواہ میں اضافہ
شام میں حکومتی فورسز کی مسلسل ناکامیوں کی کئی وجوہات سامنے آئیں جس میں اہلکاروں کی کم تنخواہیں، کمزور مورال اور اکثر اہلکار فوجی ملازمت چھوڑ کر بھی بھاگ جاتے۔
جیسے ہی حلب اور حما میں شامی فوج ناکام ہوئی صدر بشار الاسد نے ایک حکمنامے کے ذریعے فوجی اہلکاروں کی تنخواہ میں 50 فیصد اضافہ کردیا۔ لیکن صرف یہ قدم شامی صدر کی کامیابی کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
حما میں شامی فوج کو روسی فضائیہ کی بھی مدد حاصل تھی، تاہم یہ مدد بھی ناکافی ثابت ہوئی ہے۔
Comments are closed on this story.