Aaj News

ہفتہ, مارچ 29, 2025  
29 Ramadan 1446  

سنگاپور مٹنے والا ہے، ایلون مسک کی بڑی پیش گوئی

ایشیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں میں شرحِ پیدائش خطرناک حد تک گرچکی ہے، امریکی ارب پتی آجر کی ایکس پوسٹ
اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2024 07:10pm

امریکا کے ارب پتی آجر اور دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ کے رکن ایلون مسک نے کہا ہے کہ ایشیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں شرحِ پیدائش خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ سنگاپور سمیت کئی ملکوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

ایلون مسک نے اپنے سوشل میڈیا پورٹل ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایک طرف ایشیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شرحِ پیدائش گرچکی ہے اور دوسری طرف معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ معمر افراد کو پنشن کی ادائیگی اور سہولتیں دینے پر صرف ہو جاتا ہے۔

جاپان میں یہ معاملہ بہت پریشان کن ہے کیونکہ صحت کا عمومی معیار بلند ہونے سے اوسط عمر بڑھ چکی ہے اور 100 سال تک جینے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔

چند ممالک نے اپنے باشندوں کو فیملی شروع کرنے کی تحریک دینے پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ افرادی قوت کی کمی بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ سنگاپور میں گھریلو کام کاج کے لیے اب روبوٹس سے کام لینا عام ہوچکا ہے۔

سنگاپور کے بے بی کرائسز سے متعلق شایع ہونے والے ایک مضمون پر ریسپانس دیتے ہوئے ایلون مسک نے کہا کہ دنیا بھر میں لوگوں کو شرحِ پیدائش برقرار رکھنی چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں عالمی سطح پر آبادی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

جنوبی کوریا، جاپان، ہانگ کانگ اور چین میں شرحِ پیدائش گر رہی ہے اور معمر افراد بڑھتے جارہے ہیں۔ بہت حد تک بھارت بھی اِسی راہ پر گامزن ہے۔ بھارت میں شرحِ پیدائش گھٹ رہی ہے اور اِس کے نتیجے میں معیاری افرادی قوت کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے۔

سنگاپور کی حکومت خواتین کو زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی لینے پر مائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی۔ لوگ افرادی قوت کی کمی ٹیکنالوجی کے ذریعے پوری کر رہے ہیں۔ روبوٹس پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔

1970 کی دہائی تک جاپان، چین اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں خواتین پانچ پانچ بچے پیدا کیا کرتی تھیں۔ اب ان ممالک میں عام عورت ایک بچہ پیدا کرنے پر اکتفا کر رہی ہے۔ بہت سی عورتیں بچہ پیدا نہ کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ خیر، شرحِ پیدائش پوری دنیا میں گری ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے کے مقابلے میں شرحِ پیدائش 50 فیصد تک گرچکی ہے۔

جنوبی کوریا میں شرحِ پیدائش 0.72 بچہ فی عورت ہوچکی ہے۔ سنگاپور میں فی عورت یہ شرح 0.97 ہے۔ جاپان میں اس وقت شرحِ پیدائش 1947 سے کم ترین سطح پر ہے۔ جاپان سب سے تیزی سے بوڑھی ہونے والی قوم ہے۔

جنوبی کوریا میں شرحِ پیدائش کے کم ہونے کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سب پر کمانے کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ لڑکیوں کے پاس ڈیٹنگ، شادی اور بچے پیدا کرنے کا وقت ہے نہ گنجائش۔

مکانات کے کرائے بڑھتے جارہے ہیں۔ معاشی مشکلات کا یہ عالم ہے کہ پورا گھر کام کرتا ہے تو گزارا ہوتا ہے۔

شادی کی شرح 5.5 فیصد ہے اور 65 سال سے زائد عمر والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جنوبی کوریا کی 5 کروڑ 16 لاکھ کی آبادی میں ایک کروڑ افراد ایسے ہیں جن کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہی حال رہا تو 2100 تک جنوبی کوریا کی آبادی نصف رہ جائے گی۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں بھی شرحِ پیدائش بہت گرچکی ہے اور 6 سال بعد سنگاپور کی مجموعی آبادی میں 24 فیصد سینیر سٹیزن ہوں گے۔ بہت جلد سنگاپور بھی اس معاملے میں جاپان کی برابری کرنے والا ہے۔

سنگاپور اور جنوبی کوریا میں روبوٹس سے کام لینے کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ اس وقت سنگاپور میں ہر 10 ہزار محنت کشوں کے ساتھ 770 روبوٹ کام کر رہے ہیں۔

بہت سے شعبوں میں روبوٹس سے خدمات لی جارہی ہیں۔ اب پولیس کے گشت کے لیے بھی روبوٹ بروئے کار لائے جارہے ہیں۔

جنوبی کوریا کی حکومت خواتین کو بچے پیدا کرنے کی تحریک دینے کے لیے 2022 کے بعد سے فی بچہ 1850 ڈالر دے رہی ہیں تاکہ وہ بنیادی اخراجات کور کرسکیں۔ نومولود کے ایک سال کا ہونے تک ماں کو ہر ماہ اضافی رقم بھی ملتی ہے جو ماہ بہ ماہ بڑھتی جاتی ہے۔

South Korea

Elon Musk

SINGAPORE

EXTINCTION

AGEING POPULATIONS

WORK FORCE DEFICIT