پیٹرول کی مد میں بچت بننے والی الیکڑک بائیکس کیسے مالی بوجھ بنا رہی ہیں؟
اپنی ذاتی الیکٹرک موٹر سائیکل لے کر انعم کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ گو کے یہ پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکل کے مقابلے میں مہنگی تھی، مگر پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے انہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔
انعم رزاق اپنے ان تجربات کا تذکرہ کرتی ہیں جب ان کی الیکٹرک بائیک ایندھن کی مد میں بچت کا باعث بنی لیکن چند ماہ بعد یہ ہی بائیک مالی بوجھ لگنے لگی۔
کراچی میں ہی رانا فرقان کے الیکٹرک بائیک کے تجربات بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ اپنی الیکٹرک بائیک سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
انعم رزاق شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور روزانہ اپنی بائیک پر دفتر پہنچتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے بائیک استعمال کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ اب مرکزی شاہراہوں پر ہر عمر کی خواتین کو ای بائیک سمیت دیگر پیٹرول بائیک پر دیکھا جاسکتا ہے۔
ای بائیک ان کی سفری پریشانیاں ختم کرنے کا باعث نہیں بنی
انعم رزاق خوش ہیں کہ انہیں یہ سہولت میسر ہوئی اور وہ بس میں سفری پریشانیوں سے بچ گئی ہیں لیکن ای بائیک ان کی سفری پریشانیاں ختم کرنے کا باعث نہیں بنی۔
انعم رزاق اب پیٹرول بائیک چاہتی ہیں کیونکہ انہیں ای بائیک استعمال کرنے کے دوران کئی مسائل کا سامنا رہا۔ انعم رزاق نے بتایا کہ انہیں ای بائیک کی وجہ سے پیٹرول کی مد میں فائدہ ہوا لیکن ای بائیک کی مینٹننس بہت مہنگی پڑتی ہے۔
’ای بائیک کی دیکھ بحال روایتی بائیک کے مقابلے میں زیادہ ہے، اگر اس میں کوئی تکنیکی مسئلہ آجائے تو اسے دور کرنے کے لیے سفر کرکے اسی شاپ پر جانا پڑتا ہے جہاں سے بائیک خریدی گئی ہے اور اکثر ان کے پاس بھی مکینک موجود نہیں ہوتا‘۔
اپنے لباس سے زیادہ اب پلاسٹک کے اس فریم کا خیال رکھنا پڑتا ہے
ان کے مطابق ’عمومی طور پر خواتین جو بائیک استعمال کررہی ہیں وہ اسکوٹی یا الیکٹرک اسکوٹی یا بائیک ہے جس کا پورا فریم پلاسٹک ہوتا ہے، اپنے لباس سے زیادہ اب پلاسٹک کے اس فریم کا خیال رکھنا پڑتا ہے جس کے ٹوٹ جانے پر اس کی دستیابی تقریباً ناممکن ہے اور اگر مل جائے تو اس کی قیمت جیب پر بہت بھاری پڑتی ہے‘۔
رینبو سینٹر کراچی میں رانا فرقان نے کئی وجوہات کی بنیاد پر اپنی ای بائیک کو اپنے فلیٹ میں ہی پارک کردیا ہے۔ چھوٹی اور خوبصورت دیکھنے والی ای بائیک کو فروخت کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس کی معقول ادائیگی نہیں مل رہی گویا ان کے نزدیک ای بائیک کی ری سیلنگ بہت کم ہے۔
ای بائیک لیتے وقت جلد بازی کا مظاہرہ
ای بائیک خریدتے وقت رانا فرقان کے نزدیک پیٹرول کی مد میں بچت ایک اہم جزو تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں بائیک کی خوبصورتی اور ڈئیزائن کو دیکھ کر بہت خوش تھا اور یہ بھی کہ الیکڑک بائیک ہے تو اس کے اپنے مزے ہوں گے، جب سب لوگ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں پر پریشان ہوں گے تب مجھے کوئی فکر نہیں ہوگی‘۔
رانا فرقان نے ای بائیک خریدی اور دو ماہ کے دوران انہیں یہ احساس ہوا کہ ای بائیک لیتے وقت جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور چند ایک بنیادی باتوں پر غور نہیں کیا۔ اس میں قابل ذکرفلیٹس میں رہتے ہوئے ای بائیک کی چارجنگ اور اس کی دیکھ بحال تھی۔
’میرا فلیٹ آٹھویں فلور پر ہے اور ہر بار چارجنگ کے لیے میں اپنی چھوٹی بائیک آٹھویں فلور پر نہیں لے جاسکتا ہے تو اس کا حل یہ نکالا کہ یونین کے دفتر سے بائیک چارجنگ کرلی جائے لیکن جب یہ مرحلہ آیا تو کئی اعتراض اٹھے جس کے بعد طے پایا کہ میں ماہانہ ڈھائی ہزار روپے چارجنگ کی مد ادا کروں گا‘۔
کئی مرتبہ جھجھلاہٹ میں چارجنگ ادھر چھوڑی
فرقان بتاتے ہیں کہ ’پریشانی کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی، بائیک کو مکمل چارج ہونے میں 4 سے 5 گھنٹے لگتے ہیں اور اس دوران مجھے بائیک کی حفاظت کے لیے موجود رہنا پڑتا تھا، اب میں ماہانہ ڈھائی ہزار کے علاوہ اپنے کئی گھنٹے محض انتظار کرتے ہوئے گزار رہا تھا‘
’کئی مرتبہ جھجھلاہٹ میں چارجنگ ادھر چھوڑی اور گھر چلا گیا، لیکن یہ حل نہیں تھا جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اس کو فروخت کردیا جائے‘۔
’اس مرحلے میں نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ جس آؤٹ لیٹ سے ای بائیک خریدی اسی پر فروخت کے لیے کھڑی کردی تاکہ وہ فروخت کردیں اور کمیشن کی مد میں پیسے کاٹنے کے بعد بقیہ رقم فراہم کردیں لیکن دو ماہ تک فروخت نہیں ہوسکی۔ مجبور بائیک واپس لے آیا اور اپنی مدد آپ کے تحت ری سیل کرنے کی کوشش کررہا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجبوراً میں بائیک واپس لے آیا لیکن ایک بڑا مسئلہ پارکنگ تھی۔ ای بائیک کی باڈی پلاسٹک پر مبنی ہے، اگر فلیٹ کی پارکنگ میں کھڑی کرتا ہوں کہ اس پر اسکریچ یا اس کی باڈی کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہروقت لگا رہتا تھا اس لیے بائیک 8 ویں فلور پر ہی لے آیا‘۔
بائیکس کے اسپائیر پارٹس بھی کئی جگہ پر دستیاب ہے۔
اس حوالے سے ای بائیک اور اسکوٹی کے امپورٹرعبداللہ شاری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ای بائیک یا اسکوٹی سمیت دیگر درآمد بائیکس ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش ہے جبکہ بائیکس کے اسپائیر پارٹس بھی کئی جگہ پر دستیاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ چند برسوں میں ای بائیک یا اسکوٹی سے جوڑے تمام مسائل اس کے لیے دور ہوجائیں گے کہ تب تک ان کی تعداد زیادہ ہوگی اور اسی طرح ان کے مکینک کی تعداد بھی بڑھ جائے گی۔