کرم میں حالات نارمل نہیں، حکومتی دعوؤں کے بالکل برعکس ہیں، رہنما مجلس وحدت المسلمین
مجلس وحدت المسلمین کے رہنما اور کرم سے قومی اسمبلی کے ممبر حمید حسین کا کرم میں امن و امان کی صورت حال پر کہنا ہے کہ ’جس طرح بتایا جارہا ہے حالات اس کے بالکل برعکس ہیں، کرم میں حالات بالکل نارمل نہیں ہیں‘۔
حمید حسین نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کرم میں روڈ کافی عرصے سے بند ہیں، جان بچانے والی ادویات بھی ختم ہوگئی ہیں، پیٹرولیم مصنوعات بالکل ختم ہوگئی ہیں، بچے اسکول نہیں جاسکتے اور لوگ پیدل بازار جا رہے ہیں، ’یہ کہنے والی بات ہے کہ حالات نارمل ہوگئے ہیں، نارمل نہیں ہیں‘۔
واضح رہے کہ پاراچنار شہر سے 60 کلومیٹر فاصلے پر واقع علاقہ بگن اور لوئر علیزئی کے لوگ اُس وقت مورچہ زن ہوئے جب 21 نومبر کو مسافر قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا، اس حملے کے نتیجے میں 7 خواتین، 3 بچوں سمیت 43 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
واقعہ کے بعد حالات معمول سے باہر ہوگئے اور فریقین ایک دوسرے خلاف مورچہ زن ہیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر لشکر کشی بھی کی، جس کے نتیجے میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
ضلع کرم کے تین مقامات اپر کرم کے گاؤں کنج علیزئی اور مقبل ، لوئر کرم کے بالش خیل اور خار کلی سمیت لوئر علیزئی اور بگن کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور 125 کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے۔
بھاری اور خودکار اسلحہ کے استعمال کے باعث مختلف مقامات میں خوف و ہراس رہا، متعدد دیہاتوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔
حمید حسین نے کہا کہ لوگ اسے فرقہ وارانہ تصادم کا نام دے رہے ہیں، یہ کوئی سیکٹیرین کلیش ( فرقہ وارانہ تصادم) نہیں ہے، یہ لوگوں کو بے یقینی کے حالات میں رکھ رہے ہیں۔۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کرم کا معاملہ بہت حساس ہے، اس پو صوبائی اور وفاقی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دونوں مل کر اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں، اس کیلئے علاقہ معززین کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے پہلے کوشش کی کہ سیز فائر ہوجائے، اس میں کچھ حد تک کامیابی ہوئی اور آج 125 رکنی جرگہ کرم پہنچ چکا ہے۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ اس کا حل یہ نہیں وہاں پر حکومت طاقت کا استعمال کرے یا زبزدستی کرے، مستقل حل کیلئے لازمی ہے وہاں جو قابائلی طریقہ کار ہے اس پر عمل درآمد ہو۔
حمید حسین نے شوکت یوسفزئی کی بات پر کہا کہ آج جو 125 رکنی جرگہ کوہاٹ گیا، اس کا صوبائی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، وزیراعلیٰ نے کوہاٹ میں جو جرگہ تشکیل دیا تھا میں ابھی تک اس کے انتظار میں ہوں، کیونکہ چیف سیکریٹری نے کہا تھا جب جائیں گے تو میں آپ کو مطلع کروں گا، جرگہ کے ساتھ ہم نے بھی جانا ہے پاراچنار، وہاں پر جرگہ شرعو کروا کر ہم واپس آجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس جرگے کا ہمیں کوئی علم ہی نہیں ہے کہ یہ ہیں کون اور کون لے کر جارہا ہے۔
حمید حسین کی بات کا جواب دیتے ہوئے شوکت یوسفزئی نے کہا کہ قبائل اپنے طور پر بھی لگے ہوئے ہیں، صوبائی حکومت بھی لگی ہوئی ہے، وفاقی حکومت بھی کوشش کر رہی ہے کہ کوئی اس طرح کا جرگہ بنایا جائے، چیف سیکریٹری جائیں گے تو ہوسکتا ہے انہیں لے کر جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب دو متحارب گروپ آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں تو وہاں پر انٹری کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، ہمارے قبائل بھی بہت تگڑے ہیں، قبائل کے اپنے معززین حکومت سے زیادہ پُراثر ہوتے ہیں، کوشش یہ ہو رہی ہے کہ ان کو استعمال کیا جائے کیونکہ ان کی بات زیادہ مانی جاتی ہے۔
حمید حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے جرگوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے، آخری جرگے میں ایک مری معاہدہ ہوا تھا جس پر جتنے بھی خیل قومیں ہیں، شیعہ ہیں سنی ہیں سب متفق ہیں، وہ سارے رو رہے ہیں کہ خدارا اس معاہدے کا نفاذ کرو، حکومت اگر مخلص ہے سنجیدہ ہے تو کیوں نفاذ نہیں کرتی؟