جسم کی بدبو کو نسل پرستی سے جوڑنے والے مقالے پر انٹرنیٹ برہم
انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ میں جسم کی بدبُو کو نسل پرستی سے جوڑنے پر ہنگامہ برپا ہے۔ مقالے کی اشاعت کے ساتھ ہی انٹرنیٹ برہم ہے۔ یہ مقالہ تحقیق کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ اس طرح کی تحقیق پر رقم خرچ ہی کیوں کی جائے۔ ایسی تحقیق سے کسی کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟
ڈاکٹر ایلے لوکز نے بتایا ہے کہ اُس نے کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے اور پی ایچ ڈی کا موضوع تھا نسل پرستی اور بدبُو۔ مقالے کا عنوان تھا ”آلفیکٹری ایتھکس : دی پالیٹکس آف اسمیل اِن ماڈرن اینڈ کنٹیمپوریری پروز“ اور ایلی لوکز نے زبانی امتحان میں کوئی غلطی نہیں کی۔
ڈاکٹر ایلی لوکز بتاتی ہے کہ اس نے ادب میں بُو کی زبان اور گِھن کے تصور سے متعلق تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتائج کے بارے میں وہ سب کو بتانا چاہتی ہے مگر لوگوں نے اُس کی تحقیق پر خاصی تنقید کی ہے۔ بیشتر ناقدین نے لکھا ہے کہ اس نوعیت کے معاملات پر تحقیق میں وقت اور وسائل ضایع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پہلے باب میں ایلی لوکز نے اس امر پر بحث کی ہے کہ کس طور بُو کو کسی بھی طبقے یا نسل کی شناخت کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ جُزوی طور پر اس کا تعلق بے گھری سے ہے۔ اس سلسلے میں اُس نے جارج آرویل کی تخلیقات کا خصوصی طور پر جائزہ لیا ہے۔
Comments are closed on this story.