’تیسری جنگ عظیم شروع ہوچکی‘
انٹرنیٹ پر تیسری عالمی جنگ کے حوالے سے بہت کچھ شائع ہوتا رہتا ہے۔ ماہرین اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں پیش گوئی کرتے رہتے ہیں مگر تیسری عالمی جنگ ہے کہ شروع ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
برطانوی اخبار نے ماہرین کی آرا کی روشنی میں مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہوچکی ہے۔
ڈیلی میل نے بتایا ہے کہ کہیں بہت بڑے پیمانے پر تباہی واقع نہیں ہو رہی۔ کہیں دھویں کے بادل پوری فضا کو گھیرے میں نہیں لیے ہوئے۔ ایک ساتھ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی زندگی داؤ پر نہیں لگی ہوئی مگر پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہوچکی ہے۔
یوکرین میں جاری لڑائی سے بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں جاری کشیدگی کو دیکھ کر صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح پر سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ سفارت کاری اگرچہ جاری ہے تاہم اُس کے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ ایٹمی جنگ کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے۔
تجزیہ کار کہہ رہے ہیں تیسری عالمی جنگ لازمی طور پر مستقبل کا معاملہ نہیں، بعض صورتوں میں تو یہ شروع بھی ہوچکی ہے۔ ہاں، واقعات کا انداز بدل چکا ہے۔ اب بہت کچھ انڈر کرنٹ کے طور پر ہے یعنی ہے تو سہی مگر دکھائی نہیں دے رہا۔
آج کی دنیا میں بہت کچھ ڈھنگ چھپ کر ہو رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ جنگ ٹینکوں کے ذریعے لڑی جائے اور خندقوں میں چھپنے تک نوبت پہنچے۔ اب ہائبرڈ خطرات ہیں۔ خفیہ آپریشنز کے ذریعے بھی جنگی کارروائیاں کی جاتی ہیں اور بہت کچھ معرکے سائبر اسپیس میں ہو رہے ہیں۔
قومی سلامتی کے ماہر مارک ٹھوتھ اور امریکا کے سابق انٹیلی جنس آفیسر کرنل جوناتھن سوئیٹ کا شمار اُن ماہرین میں ہوتا ہے جن کے خیال میں تیسری عالمی جنگ شروع ہوچکی ہے۔
بات اِتنی سی ہے کہ ہالی وڈ کی فلموں میں جنگ کا جو منظر پیش کیا جاتا ہے تیسری عالمی جنگ ویسی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
ڈیلی میل کے مطابق جن ماہرین سے گفتگو کی گئی اُنہوں نے کہا کہ آج کی جنگ بہت مختلف ہے۔ پہلے ہلاکتیں کم ہوتی تھیں اور ڈھول زیادہ پیٹا جاتا تھا۔
اب اچھی خاصی ہلاکتیں واقع ہوتی رہتی ہیں مگر کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ اب میدان ہائے جنگ کئی خطوں پر محیط ہوسکتے ہیں اور کئی شکلوں میں پائے جاسکتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں آج کی دنیا میں جنگ مختلف اور منفرد طریقوں سے لڑی جاتی ہے۔ کئی غیر روایتی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ اب کسی خطے کو مطیع بنانے کے لیے اُسے جغرافیائی طور پر فتح کرنا بھی لازم نہیں رہا۔
تکنیکی ترقی، تجارت اور ثقافت کے محاذوں پر معرکہ آرائی جاری رہتی ہے۔ آج کی جنگ سائبر حملوں، غلط بیانی، سبوتاژ اور معاشی استحصال کے ذریعے بھی لڑی جارہی ہے۔
تیسری عالمی جنگ سیاسی سطح پر بھی لڑی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کمزور خطوں کو مزید کمزور کرنے یا کمزور ہی رکھنے کے لیے حکومتوں کو کمزور کرتے رہتے ہیں، خانہ جنگیوں کی راہ ہموار کرتے رہتے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے ایک زمانے تک دنیا بھر خطوں کو اِسی طور کمزور کرکے اپنی ترقی اور خوش حالی یقینی بنائی ہے۔
Comments are closed on this story.