سانحہ کرم کے بعد علاقے میں کشیدگی، پرتشدد واقعات میں متعدد مکانات اور دکانیں تباہ
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ سے خواتین سمیت 43 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جس کے بعد پورے خطے میں ماحول سوگوار اور کشیدہ ہیں۔ چند ایک مقامات پر واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ تین مقامات پر دو مذہبی گروپوں کے مابین مورچہ بند لڑائی شروع ہوچکی ہے جس میں بھاری ہتھار استعمال کیے جارہے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق لوئر کرم میں تین مقامات پر فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے تصدیق کی کہ ’بگن میں متعدد مکانات اور بازار میں کئی دکانوں اور پیٹرول پمپ کو بھی آگ لگائی گئی ہے‘۔
واضح رہے کہ جمعرات کو مسافر گاڑیوں پر حملے میں ہلاکتوں کے خلاف مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ضلع کرم کے لوئر پاراچنار کے مقامات پر موبائل انٹرنیٹ کی سروس متاثر ہے، کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہلاک شدگان کی تدفین کے بعد جمعے کی شام طوری قبائل کی جانب سے لشکرکشی کا آغاز ہوا اور اب لوئر کرم میں تین مقامات پر فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں بھاری ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔
کرم میں 14 کلومیٹر کے علاقے میں فائرنگ ہوتی رہی، پہلے اہلکاروں پھر مسافروں کو نشانہ بنایا گیا
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، معلوم نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم چودہ کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی، جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچھات شامل ہیں‘۔
عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ جب قافلہ ایک حملہ سے بچ کر دوسرے علاقے میں داخل ہوتا تو پھر فائرنگ کی جاتی تھی اور یہ سلسلہ تین علاقوں تک جاری رہا۔