Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

اپنا علاج خودکرنے سے اہم ہے اپنا خیال رکھنا، فرحان محمد ہارون

جعلی دواؤں سے نپٹ رہے ہیں، برآمدات بڑھانے پر بھی توجہ ہے، ہیلیون پاکستان کے سربراہ کا بزنس ریکارڈر کو انٹرویو
شائع 22 نومبر 2024 06:24pm

فرحان محمد ہارون 2022 سے پاکستان میں ہیلیون کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور جنرل مینیجر ہیں۔ وہ اِسی منصب پر 2021 سے خدمات انجام دے رہے تھے جب یہ ادارہ جی ایس کے کے ماتحت تھا۔ فرحان محمد ہارون نے 2011 میں جی ایس کے سے وابستگی اختیار کی۔ وہ اِن کنٹری فائنانشل شیئرڈ سروسز کے سربراہ تھے۔ اپنے کریئر کے دوران اُنہوں نے کئی متنوع کردار ادا کیے ہیں۔ مقامی اور بیرونی سطح پر انہوں نے ری اسٹرکچرنگ کے حوالے سے متنوع خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی انتظامی منصوبوں پر کام کیا اور تبدیلی کی راہ ہموار کی۔

فرحان محمد ہارون نے ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی سند (ایم بی اے) انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے 2013 میں حاصل کی اور 2005 میں چارٹرڈ اکاؤنٹنسی مکمل کی۔

یہاں ہم آپ کی خدمت میں اُن سے ایک انٹرویو کے تدوین شدہ حصے پیش کر رہے ہیں۔ بزنس ریکارڈ ریسرچ : ہیلیون پاکستان میں اپنے سفر کے حوالے سے کچھ بتائیے، بالخصوص جی ایس کے سے الگ ہونے کے بعد۔

فرحان ہارون : ہیلیون سے میرا تعلق 13 سال کا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ہیلیون کا حصہ تھا۔ یہ کام میرے لیے چیلنجنگ بھی رہا ہے اور اِس کے نتیجے میں بہت کچھ ملا بھی ہے۔ مجھے کئی کردار ادا کرنے کو ملے۔ سپلائی چَین مینیجنمنٹ، اداروں کا انضمام اور حصول، ری اسٹرکچرنگ، لاجسٹکس، ویئر ہاؤسنگ اور فائنانشل کنٹرولز اور دیگر معاملات میں بہت کچھ سمجھنے اور کرنے کا موقع ملا۔ متنوع تجربوں نے مجھے انڈسٹری کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کیا اور میں ہیلیون پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکا۔

اس کے بعد ڈیمرجرز ہوا یعنی ہیلیون پاکستان نے خود کو جی ایس کے سے الگ کیا۔ ہم نے ایک نیا نام پایا اور نیا مشن بھی۔ اب ہم نے دواؤں کے حوالے سے روایتی سوچ کو ترک کرکے اپنا خیال بہتر طور پر رکھنے کی سوچ اپنائی۔ پاکستان میں یہ انقلابی قدم تھا کیونکہ یہاں لوگ تجویز کردہ دواؤں کی بنیاد پر علاج کرنے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ صحت کے حوالے سے زیادہ متوجہ ہوکر اپنا خیال رکھنے پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ہیلیون نے کچھ نیا کیا ہے۔ یہ سیلف کیئر کے شعبے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی کمپنی ہے۔ ہیلیون پاکستان لوگوں کو اپنی صحت کا خیال خود رکھنے کے حوالے سے بہترین ٹولز فراہم کرکے عمل نواز رویہ اپنانے کی تحریک دیتی ہے۔

بی آر ریسرچ : سیلف کیئر پر ہیلیون پاکستان کا ارتکاز منفرد نوعیت کا ہے۔ کیا آپ صراحت کریں گے کہ ہیلیون پاکستان نے ملک میں اپنی صحت کا خیال رکھنے کے حوالے سے اب تک کس طرح کا مثبت کردار ادا کیا ہے؟

فرحان ہارون : ہیلیون پاکستان کا کردار رجحان ساز رہا ہے۔ ہم اِس تصور کے ساتھ میدان میں ہیں کہ لوگ اپنی صحت کا خیال خود رکھنے پر متوجہ ہوں اور اس سلسلے میں ہم اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ صرف دواؤں پر فوکس نہیں ہونا چاہیے بلکہ صحت کا خیال رکھنے پرتوجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ فرق بہت اہم ہے۔ سیلف کیئر بنیادی طور پر لوگوں کو اپنی صحت کا خیال اِس طور رکھنے کی تحریک دینا ہے کہ وہ بیمار پڑنے سے بچیں۔ علاج بھی ضروری ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ ضروری ہے بیماری پیدا کرنے والے حالات کی روک تھام۔

ہم نے اس حوالے سے اپنا پروڈکٹ پورٹ فولیو تیار کیا ہے تاکہ اس مشن کی تکمیل کے لیے لوگوں کی عملی سطح پر مدد کی جاسکے۔ مثلاً ہم پاکستان میں کیلسیم سپلیمنٹ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں 50 فیصد خواتین کیلسیم کی کمی سے دوچار ہیں، بالخصوص حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں میں۔ ہم جو پروڈکٹس پیش کر رہے ہیں وہ مارکیٹ کی حقیقی ضرورت کے مطابق ہیں۔ اس کے نتیجے میں عمومی سطح پر صحت کا معیار بلند ہوتا ہے۔

سینسوڈائن اورل ہیلتھ کے مسئلے سے نپٹتا ہے۔ یہ عمومی صحت کا ایک بنیادی معاملہ ہے۔ اورل ہیلتھ میں 65 فیصد معاملات حساسیت سے متعلق ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں یہ بنیادی مسئلہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لاکھوں افراد اورل ہیلتھ کو صحت کے حوالے سے سیلف کیئر کا لازمی حصہ بنالیں۔ پیناڈول بھی بہت مقبول ہے اور اِس پر بہت بھروسا کیا جاتا ہے۔ ہر سال پیناڈول کی تقریباً 6 ارب گولیاں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ پروڈکٹس عمومی سطح پر زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ اِس سے صحت مند ہونے کا احساس بڑھتا ہے اور یہ احساس بھی توانا ہوتا ہے کہ ہمارے معاملات ہمارے ہاتھ میں ہیں۔

ہمارے پورٹ فولیو میں والٹرال اور اینو جیسی پروڈکٹس بھی شامل ہیں جو درد سے راحت اور ہاضمے سے متعلق معاملات سے متعلق ہیں۔ سوال صرف انفرادی سطح پر مسائل حل کرنے کا نہیں بلکہ یہ عمومی تاثر پیدا کرنے کا ہے کہ ہماری صحت کے معاملات ہمارے ہاتھ میں ہیں، اُن پر ہمارا کنٹرول ہے۔ ہمارا اس بات پر تیقن ہے کہ ہم لوگوں کو سیلف کیئر کلچر سے اچھی طرح متعارف کرارہے ہیں تاکہ اُن میں صحت کے معاملات کو کنٹرول کرنے کا احساس توانا ہو۔ اور اِس سے زیادہ فرحت بخش احساس کیا ہو کہ میں اس اہم تبدیلی کا حصہ ہوں۔

بی آر ریسرچ : حال ہی میں ڈی ریگیولیشنز سے فارما سیکٹر میں چند تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اِن تبدیلیوں سے ہیلیون پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

فرحان ہارون : ڈی ریگیولیشن سے انڈسٹری پر وسیع البنیاد اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں اور مارکیٹ کے عملی محرکات کو نئی شکل دینے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کی بنیادی دواؤں کی فہرست اپنائی ہے جس میں ایسی 462 دوائیں بھی شامل ہیں جن کی قیمت کنٹرول کی جاتی ہیں۔ اِن سے ہٹ کر جو دوائیں ہیں ان کی قیمت کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں۔

ماضی میں قیمتیں کنٹرول کرنے کے نتیجے میں درآمدی لاگت بڑھتی رہی ہے اور مارکیٹ میں جعلی دواؤں کی بھرمار بھی دیکھی گئی ہے۔ ناگزیر دواؤں سے ہٹ کر جتنی بھی دوائیں ہیں اُن کی قیمت پر سے کنٹرول اٹھانے کی صورت میں مارکیٹ فورسز کو اپنے حصے کا کام کرنے کا موقع ملا ہے اور اِس کے نتیجے میں مارکیٹ میں دستیاب دواؤں کمی قیمتیں معقول حد تک رہی ہیں اور یوں صحتِ عامہ کے حوالے سے لازمی سمجھی جانے والی دوائیں عام آدمی دسترس میں رہتی ہیں۔

ہیلیون پاکستان کے لیے یہ بڑی تبدیلی ہے۔ ہمیں اپنی پروڈکٹس کی مسابقتی قیمتیں یقینی بنانے اور ٹاپ لائن گروتھ کے حصول میں خاصی مدد ملی ہے۔ فروخت کا حجم تبدیل نہیں ہوا مگر بہتر قیمتوں کے تعین سے مصنوعات کا معیار بلند کرنے اور استحکام برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔ اس سے آمدنی بھی بہتر ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پرائس ایڈجسٹمنٹس مارکیٹ میں ہمارے کردار پر مثبت اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔

برآمدات کے معاملے میں بھی ڈی ریگیولیشن بہت سود مند رہی ہے۔ مسابقتی قیمتوں کے بدولت ہم برآمدی منڈی میں بھھی اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور معیاری مصنوعات کے ساتھ بین الاقوامی منڈی میں بھی داخل ہونے کی پوزیشن میں ہیں۔ ڈی ریگیولیشن نے ہمیں اندرون و بیرونِ ملک معیاری کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

بی آر ریسرچ : آپ نے برآمدات کا ذکر کیا۔ کیا آپ اُن مارکیٹس کی نشاندہی کرسکتے ہیں جنہیں ہیلیون پاکستان اپنی پروڈکٹس کے لیے ہدف بنارہا ہے اور اس میں ریگیولیٹری سطح پر کون سے چیلنج درپیش ہیں؟

فرحان ہارون : ہم پروڈکٹس کے حوالے سے اپنی صلاحیت بڑھارہے ہیں اس لیے برآمدی منڈی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ ایک کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری سے ہائی اسپیڈ مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی متعارف کرانے پر جام شورو پلانٹ مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہماری پوزیشن بہتر بنانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم اس وقت جن چند برآمدی منڈیوں کو ہدف بنارہے ہیں اُن میں ویتنام، فلپائن اور کینیا نمایاں ہیں۔ یہاں ہم کیلسیم سپلیمنٹ CaC-1000 Plus فراہم کر رہے ہیں۔ ہم سیلف کیئر کے تصور کے ساتھ مزید لوگوں تک رسائی کے حوالے سے بہت پُرعزم اور پُرجوش ہیں۔

برآمد کے حوالے سے پیناڈول بہت پُرکشش ہے۔ ایک طرف تو یہ عمومی صحت کے لیے بہت اہم ہے اور دوسری طرف عام آدمی کے لیے مہنگی بھی نہیں۔ یہ خوبی اِسے بین الاقوامی سطح پر قابلِ قبول اور پُرکشش بناتی ہے۔ پاکستان میں پیناڈول درد سے راحت دلانے والی دواؤں میں خاصی معقول قیمت کے ساتھ دستیاب ہے۔ ہم ایک دو برس میں پیناڈول کو برآمدی مارکیٹ میں بڑا حصہ دلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

خیر، برآمدات کے حوالے سے چند ایک پیچیدگیاں تو ہیں۔ ہر ملک کی اپنی ریگیولیٹری نیٹ ورکنگ ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی پروڈکٹس لانچ کرنے سے پہلے کسی بھی ملک کی ریگیولیٹری ڈیمانڈز کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً ہمیں برآمدی لائسنس حاصل کرنا ہوتا ہے اور ہر ملک سے الگ الگ درآمدی اجازت نامہ بھی لینا پڑتا ہے۔ اس کے لیے کوالٹی آڈٹ بھی ہوتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہماری مصنوعات مقامی معیارات سے مطابقت رکھتی ہوں۔ یہ ایک وسیع عمل ہے۔ معیار برقرار رکھنے کے حوالے سے ہماری محنت ہمیں نئی مارکیٹس میں قدم رکھنے کے قابل بناتی ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین کے ہاتھوں پاکستان فارما سمٹ اینڈ ایوارڈز میں ایکسپورٹ ایوارڈ کا حصول ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ یہ گویا مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہمارے معیار اور صلاحیت و سکت کو تسلیم کرنا تھا۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہم اب ملک کی حدود سے باہر بھی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہنے کی پوزیشن میں ہیں۔

بی آر ریسرچ : بلا واسطہ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان کے لیے ہمیشہ ایک اہم اشو رہا ہے، بالخصوص فارما سیکٹر میں۔ فارما سیکٹر میں مستقبل کی بلا واسطہ بیرونی سرمایہ کاری (FDI) کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

فرحان ہارون : پاکستان میں ایف ڈی آئی کے حوالے مشکلات رہی ہیں۔ متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سخت پرائس کنٹرول اور خام مال کی لاگت میں اضافے کے باعث پاکستان سے نکلنے کو ترجیح دی ہے۔ بیرونی اداروں کے جانے سے براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری گھٹی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں فارما سیکٹر کی نمو کو برقرار رکھنے میں الجھنیں درپیش ہیں۔ خیر، اب ڈی ریگیولیشن سے سرمایہ کاری کی گنجائش پیدا ہوئی ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ حالات بہتر ہوتے جائیں گے۔

میں اِسے ایک ٹرننگ پوائنٹ کے طور پر لیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ملٹی نیشنل ادارے بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے ساتھ واپس نہ آئیں یا فوری طور پر واپس نہ آئیں تاہم وہ ڈسٹری بیوشن پارٹنرشپ کے ساتھ اپنی موجودگی کا گراف بلند کرسکتی ہیں۔ معاشی اور ڈی ریگیولیٹری ماحول کے مستحکم ہوتے جانے سے معاملات بہتر ہوتے جائیں گے۔

مقامی مینوفیکچرنگ میں ہمیں آے پی آئی (ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس) ایک ایسا شعبہ ہے جس پر بہت زیادہ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سطح پر زیادہ سرمایہ کاری کے لیے بھرپور اور متحرک بنیادی ڈھانچا درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہنر مند افرادی قوت اور جدید ترین طرز کی سپلائی چَین بھی۔ پاکستان نے اب تک خام مال یا inputs کی درآمد پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اس کے نتیے میں ہمارے ہاں دواؤں کی لاگت بھی بڑھتی رہی ہے اور سپلائی کے حوالے سے اعتماد پذیری بھی متاثر رہی ہے۔ اگر دواؤں کے اجزا یا خام مال کی ملک ہی میں تیاری کی کوشش کی جائے تو اِن کی درآمد پر انحصار کم ہوگا اور اس سے مقامی سطح پر اِس شعبے سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔

یہ ایک طویل المیعاد وژن ہے مگر خیر، اِس سے پاکستان کے فارما سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاروں کو کشش محسوس ہوسکتی ہے اور یوں ایف ڈی آئی کا گراف قابلِ رشک حد تک بلند ہوسکتا ہے۔

اہلِ علم، صنعت اور ریگیولیٹری باڈیز کے درمیان اشتراکِ عمل ایف ڈی آئی کے حوالے سے ریگیولیٹری سسٹم کو زیادہ قابلِ اعتماد بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ میں اِس حوالے سے بہت پُرامید ہوں۔ اس سفر میں منزل تک پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا۔

بی آر ریسرچ : پاکستان میں جعلی دوائیں ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ اس مسئلے کا حال ہیلیون پاکستان کس طور تلاش کرتی ہے؟

فرحان ہارون : بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بہت سے معاشی عوامل جعلی دواؤں کو فروغ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اس مسئلے کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ جہاں قانونی طور پر تیار کی جانے والی دوائیں بہت مہنگی پڑتی ہیں یا دستیاب نہیں ہوتیں وہاں جعلی دوائیں خلا کو پُر کرتی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال ہمارا برانڈ آیوڈیکس ہے جو ہم نے 2018 میں تیار کرنا بند کردیا تھا۔ اس برانڈ کی جعلی دوائیں اب تک مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں۔ ہم نے آیوڈیکس کے چند فیک ورژنز پائے ہیں جن پر مستقبل کی ایکسپائری ڈیٹ ہے۔ ایسی دوائیں ایک طرف تو عوام کی صحت کے لیے خطرناک ہیں اور دوسری طرف اِن سے دواساز اداروں کی ساکھ اور مالیاتی پوزیشن کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس مسئلے سے موثر طور پر نپٹنے کے لیے ایک طرف تو وسائل درکار ہیں اور دوسری طرف صارفین میں بھی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں تاہم اس کے لیے ہمیں ریگیولیٹری سپورٹ بھی درکار ہے۔ متعلقہ سرکاری مشینری کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔

جعلی دواؤں سے نپٹنے کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ پرائسنگ اسٹریٹجی معاشی طور پر قابلِ قبول اور قابلِ اعتبار ہو۔ مثالی کیفیت تو یہ ہے کہ ہم قیمتوں کو افراطِ زر یا پھر سی پی آئی کے مطابق تبدیل یا ایڈجسٹ کریں۔ دواؤں کو عوام کی مالیاتی پہنچ میں رکھنا لازم ہے تاکہ وہ الجھن محسوس نہ کریں۔ اس حوالے سے جو بھی حکمتِ عملی اپنائی جائے وہ سخت بھی ہو اور مستقل نوعیت کی بھی۔ پسپائی کی گنجائش نہیں۔ ریگیولیٹری باڈیز اور مینوفیکچررز کو مل کر کام کرنا ہے۔ جو لوگ جعلی دواؤں کی تیاری، تقسیم اور فروخت میں ملوث پائے جائیں اُن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ہم مقامی اتھارٹیز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔ ہم معیار بڑھاکر اور قیمتیں معقول حد تک رکھ کر جعلی دواؤں کے پنپنے کی گنجائش کم کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔

بی آر ریسرچ : ماحول، معاشرے اور سرکاری عملداری کے حوالے سے ہیلیون پاکستان کے اقدامات کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

فرحان ہارون : میں اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہیلیون پاکستان ماحول، معاشرے اور گورننس ے متعلق امور (ESG) کے حوالے سے غیر معمولی کمٹمنٹ کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ ہم اِس معاملے کو کاروبار کی سطح سے بہت بلند ہوکر دیکھتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بنیادی قدر ہے۔ ہم ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا گراف نیچے لانے کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کی کوششیں کر رہے ہیں۔

ہم نے سولر انفرا اسٹرکچر پر اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ توانائی کے روایتی ذرائع پر ہمارا انحصار کم ہو۔ ہم نے کم توانائی خرچ کرنے والے الیکٹرک چِلرز میں بھی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کم ہو اور ہم کاربن کے اخراج کے حوالے سے معقولیت کی طرف بڑھیں۔ ہمارے تمام آپریشنز میں پائیداری ایک بنیادی ترجیح ہے۔ پیکیجنگ میں ہم ریسائیکلنگ کو اہمیت دے رہے ہیں اور ریسائیکلڈ مٹیریلز کا استعمال یقینی بنارے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مصنوعات کا معیار بلند رکھنے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ ۔۔۔۔۔

cpi

Self care

PHARMA SECTOR

HELEION PAKISTAN

FARHAN MUHAMMED HARRON

COMPETTION

SELF MEDICATION