چاند کی پوشیدہ سمت میں کیا تھا؟ راز سے پردہ اٹھالیا گیا
نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چاند کی دور افتادہ جانب اربوں سال قبل آتش فشاں تھے جو پھٹتے رہتے تھے۔ آتش فشاں کے دھماکے اِتنے شدید ہوتے تھے کہ زمین پر سے بھی دیکھے جاسکتے تھے۔
یہ انکشاف چین کے چینگز سکس مشن کے ذریعے لائے جانے والے چاند کی زمین کے نمونوں کے تجزیے سے ممکن ہو پایا ہے۔ چینی مون مشن اپنی نوعیت کا پہلا خلائی سفر ہے جس میں چاند کے دور افتادہ یا پچھلے حصے تک پہنچ کر مٹی اور پتھر کے نمونے لائے گئے ہیں۔
محققین کی دو ٹیموں نے چاند کی مٹی اور پتھر کے نمونوں کا تجزیہ کیا اور دیکھا کہ اُن میں کم و بیش 2 ارب 80 سال پہلے کے آتش فشاں کے ذرات موجود ہیں۔ ایک پتھر کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ 4 ارب 20 کروڑ سال پہلے کا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوا کہ چاند کی سطح پر 4 ارب سال سے بھی پہلے سے آتش فشاں متحرک رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کے کرسٹوفر ہیملٹن کہتے ہیں کہ ہمیں پہلی بار چاند کے اس حصے کے نمونے ملے ہیں جس کا ہمارے پاس کوئی ڈیٹا نہیں تھا۔ اب ہم چاند کے بارے میں زیادہ جان سکیں گے۔
امریکا اور دیگر ممالک کے مُون مشنز کی پوری توجہ چاند کے اُس حصے پر مرکوز رہی ہے جس کا رخ زمین کی طرف ہے۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے اپنے لیونر ریکینیژاں آربٹر کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کردی تھی کہ چاند کے دوسری طرف آتش فشاں رہے ہیں۔ اب چین نے اس بات کو ثابت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
چین کے لائے ہوئے چاند کے نمونوں کی بنیاد پر تحقیق معروف علمی جرائد ’نیچر‘ اور ’سائنس‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ نئی تحقیق سے چاند کی نوعیت کو سمجھنے میں مزید مدد ملے گی۔
Comments are closed on this story.