دن کے 14 گھنٹے ہفتے کے ساتوں دن کام کی تجویز دینے والے باس کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں
مصنوعی ذہانت کے شعبے کی ایک ابھرتی کمپنی کے بھارتی نژاد چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے بتایا ہے کہ اُسے یہ بتانے پر قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اُس کی کمپنی ہفتے میں 84 گھنٹے کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
دَکش گپتا گریپٹائل کے سی ای او ہیں۔ انہوں نے اپنی کمپنی کے انتہائی سخت ورک کلچر کی تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں پیش کی ہیں۔
دَکش گپتا نے بتایا کہ اُن کی کمپنی میں کام کے اوقات صبح نو بجے شروع ہوتے ہیں اور رات گیارہ بجے تک جاری رہتے ہیں۔ ہفتے کے دن بھی کام ہوتا ہے اور کبھی کبھی اتوار کو بھی۔
دَکش گپتا کہتے ہیں میں ملازمت کے امیدواروں سے پہلے ہی کہہ دیتا ہوں کہ ہماری کمپنی میں کام اور زندگی کے درمیان توازن کی گنجائش نہیں دیتی۔ میں امیدواروں کو بتادیتا ہوں کہ ہم ہفتے کو بھی کام کرتے ہیں اور کبھی کبھی اتوار کو بھی طلب کرلیا جاتا ہے۔ امیدواروں کو یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ خراب کارکردگی کی کوئی گنجائش نہیں۔
دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ پہلے مجھے یہ سب بتادینا بہت عجیب لگتا ہے مگر پھر سوچا کہ معاملات ابتدا ہی سے شفاف رہیں تو کچھ ہرج نہیں۔ جو لوگ ہمارے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کس طور کام کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر دَکش گپتا کی باتیں وائرس ہوتے ہی اُن پر شدید نکتہ چینی شروع ہوگئی۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ ایسے زہریلے ماحول میں کون کام کرنا چاہے گا۔ یہ تو بہت ہی خطرناک ذہنیت ہے۔ کچھ لوگوں نے دَکش مہتا کو سب کچھ صاف صاف بتانے پر سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ملازمین کو اچھا معاوضہ دیا جارہا ہے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ یہ جدید دور کی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔
دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعد اُن کے اِن باکس میں موت کی دھمکیاں بھی ہیں اور ملازمت کی درخواستیں بھی۔ اِن ای میلز میں 20 فیصد موت کی دھمکیوں سے متعلق ہیں اور 80 فیصد ملازمت کی درخواستوں پر مبنی ہیں۔
جاپان میں ہفتے میں چار دن کام کا نظام متعارف کرانے کی تیاری
دَکش گپتا کا کہنا ہے کہ کام کا یہ سخت ماحول ابتدائی مرحلے میں ہے۔ جب ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا تب اِس قدر کام کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔