”بلڈوزر انصاف“ کا ٹرینڈ اور مسلمانوں کے حق میں بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ
بھارت کی سپریم کورٹ نے ملک بھر میں کہیں بھی باضابطہ عدالتی حکم کے بغیر کسی بھی مکان، دکان یا کسی اور ڈھانچے کو بلڈوز کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ بنیادی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی سپریم کورٹ کی رولنگ کا خیر مقدم کیا ہے۔
سپریم کورٹ کو یہ حکم اس لیے دینا پڑا کہ ملک بھر میں متعدد مقامات پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے مکانات اور دکانوں کو بلڈوز کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر غیر معمولی انتشار پیدا ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ کے دوران دہلی اور دوسرے بڑے اور چھوٹے شہروں میں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مسلمانوں کے مکانات اور دکانیں بڑے پیمانے پر گرائی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ مقامی انتظامیہ کے ایگزیکٹیو اپنی صوابدید کے مطابق کرتے رہے ہیں۔
جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بھارتی سپریم کورٹ کے بینچ نے ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ بلڈوز کلچر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ لوگوں سے روزگار اور چھت دونوں ہی چیزیں چھینی جارہی ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹیوز جج کا کردار ادا کرنے سے گریز کریں۔ اگر کسی کے خلاف غیر قانونی قبضے کے حوالے سے کوئی کارروائی کنی بھی ہو تو عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی ایگزیکٹیو اپنے طور پر فیصلہ نہیں کرسکتا۔
مکانات اور دکانیں گرانے کے عمل کا ہدف ہندو بنے ہیں تاہم مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کہیں بھی فسادات کے بعد مسلمانوں کو نشانے پر لے کر مقامی انتظامیہ اُن کے مکانات گراتی رہی ہے۔ اِسے بلڈوزر انصاف کا نام دیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے مقامی انتظامیہ کی طرف سے بلڈوزر کے ذریعے مکانات گرانے کے عمل کے خلاف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں متعدد درخواستیں دائر کی تھیں۔