جمہوریت کی شکل میں آمریت اور ہٹلرازم، کیا امریکا میں فوجی مداخلت ہوسکتی ہے؟
”مبارک ہو! تجھے قریبی پلانٹیشن میں کاٹن کی چنائی کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے، جس کا آغاز 07 نومبر 2024 سے ہورہا ہے، صبح ٹھیک 8 بجے سامان سمیت تیار رہو، غلاموں کو پکڑنے والے ہمارے افسران تمھیں لینے کے لیے کتھئی رنگ کی گاڑی میں آئیں گے، پلانٹیشن میں داخلے کے وقت تلاشی کے لیے بھی تیار رہو، تمھیں پلانٹیشن گروپ 7میں رکھا گیا ہے“۔ یہ پیغام نامعلوم نمبروں سے سیاہ فام بچوں، طلبہ و طالبات، خواتین اور مردوں کو بھیجا گیا ہے۔
اس پیغام نے امریکا کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی معاشرے میں ہمیشہ سے موجود نسلی تعصب سر چڑھ کر بول رہا ہے، امریکی عوام کی اکثریت نے 2024کے الیکشن میں نسلی تعصب امریکا میں تقسیم پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
پہلے اس پیغام میں موجود دو الفاظ کو دیکھتے ہیں، ایک پلانٹیشن دوسرا کاٹن۔ یہ الفاظ ذہن میں آتے ہی انسانی تاریخ کی بدترین شکل سامنے آجاتی ہے، جب 17ویں صدی سے افریقی ملکوں سے سیاہ رنگت والے انسانوں کو اغوا کرکے امریکا میں لاکر فروخت کردیا جاتا تھا۔
پلانٹیشن کا مطلب یوں سمجھیں کہ کسی جاگیر میں کسان کا کام کرنا یا کھیتی باڑی کا حصہ ہونا، امریکا کی زمین کو فصلوں کے لیے بڑا زرخیز سمجھا جاتا ہے، ان میں کپاس یعنی کاٹن کی فصل خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔ سیا فام غلاموں کو ان جاگیروں پر استعمال کیا جاتا تھا، امریکا کی سرزمین کئی صدیوں تک سیاہ فام انسانوں کا خون چوستی رہی ہے۔ اگر سترھویں صدر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا موجود ہوتا تو حقائق جان کر لوگ چنگیز خان اور ہلاکو کو بھول جاتے۔
الیکشن کے بعد نیویارک اور کیلی فورنیا سمیت امریکا بھر میں ایسے پیغامات کی بھرمار ہے اور امریکی دانشور اور تجزیہ کار الیکشن سے قبل جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے، وہ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ٹرمپ کے انتخابی اعلانات سے غیرقانونی تارکین وطن اور دوسری رنگ دار نسلیں پہلے ہی خوف زدہ تھیں، سیاہ فاموں کو بھیجے جانے والے پیغامات نے منقسم معاشرے پر چڑھا ملمع بھی اتار دیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ دھمکیوں کو کم تر سطح کا خطرہ سمجھا جارہا ہے۔
ایف بی آئی یا دیگر تحقیقاتی اداروں کا بیان اسی نسل پرستانہ رویے کو مہمیز کرتا ہے کہ کوئی بات نہیں۔ پیغام وصول کرنے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ امریکی معاشرہ ابھی تک دور غلامی میں ہے، ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں صدیوں پہلے تھے، سفید فام برتر اور سیاہ فام کمتر ہیں۔
امریکا میں رنگ دار افراد کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ادارے نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈیرک جانسن نے ٹرمپ کے انتخاب کو افسوسناک قرار دیا اور کہا نفرت کو بڑھاوا دینے اور اسے تسلیم کرنے والے صدر کا انتخاب ہماری بدقسمتی ہے۔ سی این این کے مطابق یہ پیغام دوسری رنگ دار نسلوں کو بھی بھیجا گیا ہے، ایک ای میل میں لفظ نیگر کا بھی استعمال کیا گیا، جسے کسی سیاہ فام کو کمتر ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے غیرقانونی تارکین وطن کو نکالنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے، انھیں نکالنے کے لیے فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ اقدام بھی اسی نسلی برتری کا ایک حصہ ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کے عہدے دار تو ان تارکین وطن کے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی امریکی ماننے کو تیار نہیں ہے، اور ان بچوں کو بھی ملک بدری کا سامنا کرنا ہوگا، نسلی برتری کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوگی کہ چاہے آپ امریکی شہریت کا حق ہی کیوں نہ رکھتے ہوں، اگر رنگ دار ہیں تو امریکا میں آپ کی کوئی گنجائش نہیں۔
امریکی معاشرے کو ایک اور خطرے کا بھی سامنا ہے اور وہ انتظامی تباہی ہے، امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون میں غیر رسمی طور پر یہ بحث جاری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد غیرقانونی احکامات جاری کیے یا امریکی فوج کو اندرون ملک ذمہ داریاں تفویض کیں اور یا پھر بڑے پیمانے پر سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا تو وزارت دفاع کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی انتظامیہ میں وفاداروں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور ”کرپٹ عناصر“ یعنی ٹرمپ مخالف اہلکاروں کا صفایا کریں گے۔ پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ وہ بدترین صورتحال سے نمٹنے کی پیش بندی کررہے ہیں، قانونی طور پر فوج کو یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے غیرقانونی اقدامات پر عمل کرنے سے انکار کرسکتی ہے۔
لیکن اگر صدر نے غیرقانونی حکم دیا تو کیا ہوگا؟ کیا اعلیٰ فوجی قیادت مستعفی ہوگی یا کوئی اور قدم اٹھائے گی؟ ٹرمپ کی سابق انتظامیہ کے عہدے دار کے مطابق ٹرمپ کے پچھلے دور صدارت میں ٹرمپ اور فوج کے درمیان تعلقات انتہا سے بھی زیادہ خراب تھے۔ ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے والے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور وائٹ ہاوس میں چیف آف اسٹاف ریٹائرڈ جنرل جان کیلی نے کہا کہ فاشسٹ کی تعریف پر ٹرمپ پورا اترتے ہیں۔ ٹرمپ اپنی گفتگو کے دوران ہٹلر کے نازی جنرلوں کی وفاداری کا ذکر کرتے رہے ہیں۔
دوسری طرف پوری دنیا کی نظریں ٹرمپ کی طرف لگی ہوئی ہیں، یوکرین خوفزدہ ہے کہ نہ جانے ٹرمپ روس یوکرین جنگ کے حوالے سے کیا فیصلہ کریں، اسی طرح یورپ بھی تشویش کا شکار ہے، یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ ٹرمپ اپنے پچھلے دور صدارت میں نیٹو کو چھوڑنے پر غور کر چکے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949میں قائم کی گئی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کا مقصد یورپ میں سوویت یونین کا پھیلاؤ روکنا تھا، امریکا یورپ میں قوم پرستانہ رجحان کے خلاف تھا اور اس کی نظر میں نیٹو اس حوالے سے بہت کارآمد تھا۔ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے کو چھوڑنے کی بات بھی کرچکے ہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ اس بار ڈی جے وینس نائب صدر ہوں گے، وینس نے 2016میں کہا تھا کہ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ٹرمپ کو گھٹیا شخص کہیں یا امریکا کا ہٹلر، ان کے یہ الفاظ ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اور وینس نے ان الفاظ کو واپس بھی نہیں لیا ہے۔ ٹرمپ کے سابق اور موجودہ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ متلون مزاج شخص ہیں، غیرمتوقع ہیں، وہ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کی مینجر سوزی وائلز تھیں جنھوں نے جارحانہ انداز میں مہم چلائی اور معاشرتی تقسیم کی ذمہ دار ٹھہریں، ٹرمپ نے انھیں اپنا چیف آف اسٹاف مقرر کردیا ہے، یعنی وائٹ ہاؤس اور دنیا میں امریکی صدر کے بعد یہ سب سے طاقت ور اور بڑا عہدہ ہے۔ ٹرمپ نے تارکین وطن کے حوالے سے انتہائی سخت اور متعصبانہ نظریات کے حامل ٹام ہومین کو امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کا ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔
دیگر اہم عہدوں کے لیے بھی ٹرمپ ایسے افراد کا انتخاب کر رہے ہیں جو ان کے وفادار ہیں۔ اور جلد ہی ان کے نام سامنے آنے والے ہیں۔ ٹرمپ امریکی تاریخ کے واحد سزا یافتہ صدر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ ان کے بارے میں کس طرح کے منفی خیالات رکھتی ہے، نہ انھیں احترام سے دیکھتی ہے جبکہ ٹرمپ کو ہٹلر کے ساتھیوں جیسی غیرمشروط وفاداری چاہیے۔ ٹرمپ اس بار اپنے گرد ایسا حصار بنانا چاہتے ہیں جسے توڑنا آسان نہ ہو۔
نسل پرستی، غیرقانونی احکامات، برطرفیاں، وفاداروں اور انتہاپسندانہ نظریات کے حامل افراد کا تقرر، ٹرمپ کی ان سچائیوں نے امریکی انتظامیہ اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ امریکا کو ریاست ہائے متحدہ بنے ہوئے 248سال ہوچکے ہیں، وفاق اور ریاستیں اپنے اپنے دائرے میں کام کرتی ہیں، امریکا کو جس چیز نے ابھی تک متحد رکھا ہے وہ سسٹم کا چیک اینڈ بیلنس اور جمہوریت ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ حلف اٹھاتے ہی بہت سے ایسے حکم صادر کریں گے جس کے امریکی سیاست و معاشرت اور دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اگر امریکی صدر نے ایسا حکم دیا جو غیرقانونی ہو تو کیا امریکی افواج اسے ماننے سے انکار کردیں گی؟ کیا پینٹاگون نے مداخلت کا فیصلہ کررکھا ہے؟ کیا امریکی تاریخ کے طاقت ور ترین صدر کو مخالفت کا سامنا ہوگا؟ یا سب بادشاہ سلامت زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے اور دنیا کو جمہوریت کی شکل میں ایک نئی آمریت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی ہٹلر ثانی۔