سیاست اور جنگ انسانوں کو تقسیم کرتی ہے، فلسطینی اداکار احمد طوباسی
پاکستان آئے فلسطینی اداکار احمد طوباسی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ثقافت اور شناخت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے نئے طریقے اپنانے چاہئیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والے ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطینی اداکار احمد طوباسی نے اپنے ڈرامے ”And Here I Am“ میں ایک دل چسپ داستان پیش کی جس میں حقیقت اور تخیل، المیے اور مزاح کا خوبصورت امتزاج دکھایا گیا۔ یہ داستان طوباسی کی ذاتی زندگی کے تجربات اور فلسطینیوں کی مشترکہ جدوجہد پر مبنی ہے، جس میں انہوں نے اپنی نوجوانی سے جوانی کے سفر کی عکاسی کی۔ ڈرامے میں ان کے کردار نے فلسطینیوں کی زندگی میں موجود سختیوں اور ان کے عزم کو اجاگر کیا ہے۔
احمد طوباسی کے ڈرامے نے مہاجرین کی مشکلات، شناخت کی تلاش، اور آزادی کے سفر کی عکاسی کی۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے فلسطینی ثقافت اور آرٹ کے ذریعے مزاحمت کر رہے ہیں۔ طوباسی نے کہا، ”And Here I Am محض ایک زندہ رہنے کی کہانی نہیں، بلکہ یہ اس قوم کے عزم و استقلال کی داستان ہے جو خاموش رہنے سے انکار کرتی ہے۔“ اس ڈرامے میں انہوں نے جنگ، قبضے، اور جلاوطنی کے اثرات کو ایک ذاتی انداز میں پیش کیا۔
ڈرامے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں احمد طوباسی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف ممالک کے فنکاروں کے ساتھ پرفارم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے فنکار یہاں پاکستان میں موجود ہیں، تو یہ ایک بڑا پیغام ہے۔ مغرب ہمیں صرف دہشت گرد سمجھتا ہے، لیکن یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہم بھی فنکار ہیں۔ آرٹ لوگوں کو جوڑتا ہے، جبکہ سیاست اور جنگیں لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں۔“
انہوں نے فلسطین میں موجودہ صورتحال کو ”تاریخ کا سب سے بدترین اور پرتشدد جینوسائیڈ“ قرار دیا اور کہا کہ یہ نہ صرف لوگوں، بلکہ زمین، ثقافت، اور فنکاروں کی شناخت کا بھی خاتمہ ہے۔ طوباسی نے کہا، ”میں نے فن کو اپنے خیالات کا اظہار اور مزاحمت کا ذریعہ بنایا ہے اور میں تشدد کی بجائے آرٹ کے ذریعے اپنی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔“
مسلم دنیا کو پیغام دیتے ہوئے احمد طوباسی نے کہا کہ مغرب نے طویل عرصے تک مسلمانوں اور مشرق وسطیٰ کو غیر انسانی انداز میں پیش کیا ہے، اور مسلمانوں کو اپنی ثقافت اور شناخت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے نئے طریقے اپنانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا، ”یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی شناخت اور حقیقت سے دنیا کو آگاہ کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مذہب اور تاریخ کے ساتھ ساتھ ثقافت اور آرٹ پر بھی توجہ دیں تاکہ دیگر اقوام کو ہمارے بارے میں صحیح علم ہو۔“
احمد طوباسی نے پاکستان کے لوگوں کی مہمان نوازی کو سراہا اور کہا کہ پاکستانی عوام کی محبت نے انہیں بہت متاثر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دنیا کے سامنے خود کو ایک بہتر اور حقیقی انداز میں پیش کرنا چاہیے۔