بائیڈن حکومت کے آخری دو مہینوں میں نیتن یاہو کو امریکی انتقام کا خدشہ
ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکا کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ یہ تبدیلی اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے لیے خاصی پریشان کن ہے کیونکہ اُنہیں یہ خدشہ ستارہا ہے کہ صدر بائیڈن جاتے جاتے اسرائیل کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں جیسا کہ براک اوباما کے دور میں ہوا تھا۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کو امید تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ جیت جائیں گے۔ انتخابی نتیجہ اُن کی توقع کے مطابق رہا تاہم وہ تھوڑے سے فکرمند بھی ہیں۔
فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیلی پالیسی اور حکمتِ عملی نے بائیڈن انتظامیہ کو مشکل میں ڈالا۔ ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ بائیڈن جاتے جاتے کہیں بنیامین نیتن یاہو کے خلاف تو کچھ نہیں کر گزریں گے۔
بنیامین نیتن یاہو ڈیموکریٹس کے حوالے سے تحفظات کا شکار رہے ہیں۔ ان کا یہ خیال رہا ہے کہ وہ ری پبلکنز کے ساتھ زیادہ اچھی طرح کام کرسکتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا احساس رہا ہے کہ ڈیموکریٹس اُنہیں زیادہ قابلِ احترام نہیں گردانتے۔
20 جنوری کو ٹرمپ کی دوربارہ حلف برداری تک جو بائیڈن ہی امریکا کے صدر ہیں۔ اس دوران وہ کچھ نہ کچھ ایسا کرسکتے ہیں جس سے اسرائیل کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے 23 دسمبر 2016 میں اپنے آخری ایام کے دوران یہودی بستیوں کے خلاف ایک قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا تھا جس کے نتیجے میں دی ہیگ کی عالمی عدالت میں اسرائیل کو قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بنیامین نیتن یاہو کو ڈر ہے کہ کہیں جو بائیڈن بھی جاتے جاتے ایسی ہی کوئی الجھن کھڑی نہ کر جائیں۔
اسرائیلی قیادت حماس اور حزب اللہ سے جنگ بندی کے لیے تیار نہیں۔ صدر بائیڈن جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان قرارداد نمبر 1701 کو فعال بنانے پر بھی زور دیں۔ اسرائیل اس حوالے سے گریز کی راہ پر گامزن رہا ہے۔
Comments are closed on this story.