آئینی بینچز کی تشکیل اور چیف جسٹس کی تعیناتی: حکومت نے جے یو آئی کی پیٹھ میں چھرا کیسے گھونپا؟
جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر اور سینئیر قانون دار کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ سنیارٹی کے اصول کو جب نظرانداز کیا جائے تو اس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے، وجہ نہ ہو تو پھر اس کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ“ لائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ نہیں ہیں سینیئر جج ہیں، ہم نے یہی اصطلاح شامل کی تھی، اگر سربراہ کی اصطلاح استعمال کرنی شروع کرہیں تو پھر عدالت کے اندر عدالت اور ریاست کے اندر ریاست کے خیال آجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہی دن سے ہماری تشویش یہی تھی کہ سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز نہ کیا جائے، لیکن جو کچھ ہو رہا ہے، حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ درست نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے معاملات جب فائنل ہو رہے تھے تو ایک سے زائد مرتبہ ہمیں باور کروایا گیا تھا کہ چیف جسٹس کے معاملے سیمت سنیارٹی کا اصول مدنظر رکھا جائے گا۔
یقین دہانی اعظم نذیر تارڑ نے کرائی تھی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نام کو چھوڑیں، میں نے پہلے کبھی کسی کے بارے میں کہا تھا تو مجھے پارٹی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آپ بند کمروں کی باتیں باہر کھل کر نہ بیان کیا کریں۔ ہمیں باور کرایا گیا تھا کہ منصور علی شاہ سینئیر جج ہیں انہیں ہی بنایا جائے گا۔
جسٹس منصورعلی شاہ کے آئینی بینچز سے متعلق دلچسپ ریمارکس
ان کا کہنا تھا کہ سنیارٹی کا اصول صرف اس صورت میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بندہ سینئیر ہو لیکن وہ اس پوزیشن کے لائق نہ ہو ایا اس میں دیگر خامیاں اور کمیاں ہوں۔
آئینی بینچ کی فی الحال صرف 60 دن کیلئے تشکیل پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بینچ کو پریشر میں رکھنا چاہتے ہیں، 60 دن میں اگر بینچ کے کسی ممبر پر کسی کو اعتراض آگیا تو آپ حکومتی اکثریت بندوق کو کسی اور طرح سے رکھ کر چلائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک غلط رویہ ہے، اس سے ترمیم جائے گی کیونکہ آپ نے اس ترمیم کا غلط استعمال شروع کردیا ہے۔
سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو جن اداروں کی لئے کیا گیا ان کے لئے مسائل پیدا کرنے والی بات ہے۔