چیف جسٹس نے آئینی بینچ کی مخالفت کیوں کی؟ جوڈیشل کمیشن اجلاس کی اندرونی کہانی منظر عام پر
چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن کے ممبر پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر سینئیر ججز منصور علی شاہ اور منیب اختر کا خیال یہ تھا کہ آئینی بینچ کا ممبر سپریم کورٹ کے تمام ججز کو ہونا چاہئیے، اور اس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان کو کرنی چاہئیے۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے اختر حسین نے کہا کہ شبلی فراز اور عمر ایوب نے چیف جسٹس اور سینئیر موسٹ ججز کے خیال کو سپورٹ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی نامزدگی کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنی، اس کمیٹی میں سینئیر موسٹ تین ججز یحییٰ آفریدی، منصور علی شاہ اور منیب اختر کو زیر غور لایا گیا اور جو تیسرے نمبر پر تھے انہیں چیف جسٹس بنایا گیا، دوسرا نکتہ نظر یہ تھا کہ تین سینئیر ججز کو اس بحث میں آچکے ہیں ان کے بعد جو سینئیر جج ہو اس کو آئینی بینچ کی سربراہی کرنی چاہئیے، باقی تمام صوبوں سے سنیارٹی کو ترجیح دی گئی ہے۔
انہوں نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہت ہی اچھے ماحول میں اجلاس ہوا، جسٹس یحیٰ آفریدی نے بہت ہی اچھے انداز میں معاملات اور لوگوں کو بیلنس کیا، شبلی فراز اور عمر ایوب نے کہا کہ یہ اجلاس ہی غیرمؤثر ہے کیونکہ تیرہواں جج جو آئینی بینچ کا ہیڈ ہے وہ نامزد ہی نہیں ہوا ہے۔ جس پر ہم نے ان کو جواب دیا کہ آپ خود آئین کو دیکھیں اس میں لکھا ہوا ہے اگر کوئی جج غیرحاضر ہے یا انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اجلاس غیرمؤثر نہیں ہوگا، اس بات پر جسٹس منہیب اختر نے بھی تائید کی۔
خیال رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے اعلامیے میں بھی اس بات کا ذکر کے کہ عمرایوب نے ایک رکن کی غیرموجودگی میں کمیشن کے کورم پر اعتراض کیا لیکن عمرایوب کے اعتراض پر ووٹنگ کے ذریعے اکثریت نے فیصلہ کیا کہ اجلاس آئین کے مطابق ہے اور ایک رکن کی غیرموجودگی میں بھی اجلاس جاری رکھا جاسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.