’اسرائیل بھارت کی تعلقات چھپانے والی داشتہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب سب کھلا ہے‘
جب ہندوستان نے حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ فلسطین کاز پر دہلی کا مؤقف بدل گیا ہے اور اسے ”بڑی پالیسی میں تبدیلی“ قرار دیا گیا۔
تاہم، اس کی وضاحت کرنے کیلئے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ ہندوستان حماس کے حملے کو ”دہشت گردانہ حملہ“ سمجھتا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ہندوستان ایک ”خودمختار، آزاد اور قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی اپنی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔“
لیکن یہ تاثر اس وقت غلط ثابت ہوا جب بھارت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ نہ دینے کے لیے جونبی محاذ پر تنہا کھڑا نظر آیا۔
غزہ میں وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک سال سے جاری لڑائی میں کم از کم 43,314 افراد شہید اور 102,019 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 55 اموات بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا قریبی اتحادی سمجھتے ہیں۔
جب سے مودی نے اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم کے طور پر 2017 میں تاریخ رقم کی، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نمایاں طور پر مضبوط ہوئے۔
اس حوالے سے آج نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی اور میزبان شوکت پراچہ نے بھارتی صحافی شُبھجیت رائے سے اس طول موج پر ایک سوال پوچھا جو گزشتہ ماہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کے اجلاس کی کوریج کے لیے پاکستان میں تھے۔
انڈین ایکسپریس سے وابستہ شبھجیت رائے نے واضح کیا کہ ہندوستانی حکومت اب بھی فلسطین کاز کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر خلیجی اور عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تجارت شروع کر دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور خلیجی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ دفاع، سلامتی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلقات گزشتہ برسوں میں گہرے ہوئے ہیں۔
بدلتے ہوئے منظر نامے کو مزید بیان کرنے کے لیے، انھوں نے جغرافیائی سیاست کی واضح تصویر پیش کرنے کے لیے ایک تبصرہ شیئر کیا۔
انہوں نے کہا، ’ایک سابق اسرائیلی سفیر نے کہا کہ ہندوستان کے لیے اسرائیل ایک داشتہ کی طرح ہے جو اپنے تعلقات اور غیر ازدواجی تعلقات کو چھپاتی ہے۔‘
بھارتی صحافی کے مطابق، ’لیکن موجودہ بھارتی حکومت نے ان تعلقات کو کھلا کر دیا ہے کیونکہ مفادات کا تعلق دفاع اور سلامتی کے معاملات سے زیادہ ہے۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ جب عرب ممالک ایسا کر رہے ہیں تو کوئی ملک اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے سے کیوں گریز کرے گا۔