غزہ جنگ کے باعث امریکی فوج چھوڑنے والے اہلکار کون ہیں اور کیا کہتے ہیں؟
ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ غزہ میں اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینی شہریوں (بالخصوص خواتین اور بچوں) پر جو قیامت ڈھائی ہے، جو مظالم توڑے ہیں اُن کے پیش منظر میں متعدد امریکی فوجی ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس لیے ملازمت چھوڑ گئے ہیں کہ اسرائیل کو امریکا کی حمایت حاصل ہے۔
اصطلاحاً اِسے کنساینشیس آبجیکٹر اسٹیٹس کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی شخص اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت پر اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرے اور اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فوج کی خدمت سے کنارہ کش ہو جائے۔
جب امریکا نے ویتنام کے خلاف بلا جواز جنگ چھیڑی تھی تب بھی متعدد امریکی فوجیوں نے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے فوج سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ اب پھر وہی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ مذہبی یا اخلاقی بنیاد پر امریکی فوج کی ملازمت چھوڑنے والے سامنے آئے ہیں۔
امریکی ایئر فورس میں سیکنڈ لیفٹیننٹ جوائے میزلر نے محسوس کیا کہ ضمیر پکار رہا ہے اور اُس نے پکار سن کر جواب دیا۔ چین سے آبائی تعلق رکھنے والی جوائے میزلر کو ایک رجعت پسند عیسائی خاندان نے اپنایا تھا۔ وہ محسوس کرتی تھی کہ وہ امریکا کی مقروض ہے اور قرض چُکتا کرنا ہے۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے شہریوں پر قیامت ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا تو جوئے میزلر کا امریکا پر اعتقاد ڈگمگا گیا۔ چند ہی ماہ کے اندر اُس نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوج سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ چند دوسرے امریکی فوجیوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
اب جبکہ غزہ کی لڑائی دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہے، امریکی فوج کے چند ارکان ویتنام جنگ کے دور کیفیت سے دوچار ہیں۔ وہ ضمیر کی خلش محسوس کرتے ہوئے فوج کی ملازمت ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اسی سال ہیریسن مین نے بھی، جو ڈیفینس انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ تھے، اسرائیل کے لیے امریکی حمایت پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ فروری میں پچیس سالہ امریکی ایئر مین آرون بُشنیل نے اپنے آپ کو واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے آگ لگالی تھی اور پھر انتقال کرگیا تھا۔
امریکی فوج میں چند ہی افراد اخلاقی بنیاد پر یا ضمیر کی خلش کی بنیاد پر ملازمت ختم کرنے کے آپشن کے بارے میں جانتے ہیں۔ غزہ کی لڑائی کے باعث اس راہ پر چلنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع نے اس حوالے سے آنے والی درخواستیں فوج کے ہر شعبے کو بھیجی ہیں۔ ایئر فورس کے ترجمان نے بتایا ہے کہ 2021 سے اب تک اُسے ملازمت ختم کرنے کی 42 درخواستیں موصول ہوئی ہیں جبکہ 36 کو قبول بھی کیا جاچکا ہے۔
غزہ کی لڑائی کے بعد سے اب تک فوج کی ملازمت چھوڑنے کی درخواستوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا تاہم اتنا ضرور ہے کہ ضمیر کی بات کرنے والوں کے ذہن پر غزہ کی صورتِ حال کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہ بات ویتنام کے دور کے آبجیکتر اور سینٹر آن کنسائنس اینڈ وار کے ڈائریکٹر آف کاؤنسلنگ بل گیلوِن نے بتائی۔ وہ فوج کے ارکان کو بیورو کریسی کے پیچیدہ عمل میں سے گزرنے میں مدد دیتا ہے۔
گیلوِن کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ سالانہ 50 تا 70 درخواست گزاروں کی مدد کرتا ہے۔ فوج کی ملازمت چھوڑنے والوں کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکا نے گزشتہ برس غزہ میں جاری لڑائی کے حوالے سے اسرائیل کو سبسڈی کی مد میں 18 ارب ڈالر تک امداد دی۔ امریکا کے لیے ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ قضیہ پھیلتا جارہا ہے اور دیگر علاقوں کو بھی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
جوائے میزلر نے بتایا کہ اس کی پرورش اس طور ہوئی کہ اُسے بتایا گیا کہ اسرائیل خدا کے منتخب لوگوں کی زمین ہے اور دہشت گرد اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ اور یہ بھی کہ یہ دہشت گرد ہماری موجودہ حالت یعنی شاندار ترقی کے بھی خلاف ہیں۔
میزلر کا کہنا ہے کہ اس نے فضائیہ میں اپنے ساتھیوں کی طرزِ عمل سے بہت سیکھا۔ اُسے یاد ہے کہ ایئر فورس اکیڈمی میں اس کے کلاس میٹ ڈرون سے بچنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی فوٹیج دیکھ کر سب کے ساتھ ہنستی تھی۔ بعد میں اُسے اپنی اس حرکت پر شدید شرمندگی محسوس ہوئی۔
میزلر کہتی ہے کہ وہ اکیڈمی سے اس طرح باہر آئی کہ جنگ اس کی نظر میں کوئی بہت قابلِ احترام حالت تھی مگر پھر اسے اندازہ ہوا کہ کسی بھی فوج کا حصہ بننے کے لیے لازم ہے کہ انسانی زندگی کو بے وقعت کیا جائے۔
جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں فلسطین سے ہمدردی رکھنے والے سابق فوجیوں کے ایک گروپ سے وہ ملی تو معلوم ہوا کہ فوج میں یہ انتظام موجود ہے کہ ضمیر کی خلش کی بنیاد پر خود کو فوج سے الگ تھلگ کرلیا جائے۔
امریکا کے ایک اور سینیر ایئرمین لیری ہربرٹ نے بتایا کہ یہ عمل خاصا طویل اور پریشان کن تھا۔ جب ہربرٹ نے غزہ کی تصویریں دیکھیں تو اُس کے لیے امریکی فوج کے ساتھ رہنے کا کوئی جواز نہ رہا۔
وہ مارچ میں تعطیلات گزارنے اسپین گیا اور وہیں غزہ کے شہید یا پھر بھوک سے دوچار بچوں کی تصویریں دیکھ کر لرز اٹھا اور بھوک ہڑتال شروع کردی۔
Comments are closed on this story.