امریکا میں صدارتی انتخابات، ریاست مشی گن کے نتائج پانسہ پلٹ سکتے ہیں
امریکا میں صدارتی امیدواروں کی قسمت کے فیصلے میں ریاست مشی گن کا اہم کردار ادا کرے گی، یہاں کے نتائج پانسہ پلٹ سکتے ہیں، تین لاکھ عرب ووٹرز کا کردار کسی بھی امیدوار کے مقدر کا فیصلہ کرے گا۔
امریکا میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی، ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار کمالا ہیرس کے درمیان رسہ کشی جاری ہے اور کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
کچھ پولز میں کمالا کو برتری حاصل تو کچھ میں ٹرمپ بازی لے جاتے ہیں۔ تاہم ریاست مشی گن کے نتائج پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مشی گن میں عرب نژاد امریکی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو مشرق وسطیٰ کی جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرسکتے ہے۔
رپورٹ کے مطابق مشی گن میں کل ووٹرز کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے جن میں تقریباً تین لاکھ عرب ووٹرز شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ تعداد اتنی بڑی نہیں لگتی لیکن پچھلے دو الیکشنز کے نتائج پر غور کریں تو یہاں چند ہزار ووٹ بھی کسی امیدوار کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مشی گن میں دس ہزار ووٹوں کے فرق سے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی جبکہ دو ہزار بیس میں جو بائیڈن یہاں تقریباً ایک لاکھ ووٹ کے فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ سے جیتے تھے۔
امریکی انتخابی نظام یا الیکٹورل سسٹم مجموعی ووٹوں کی تعداد کی بجائے الیکٹورل سسٹم پر منحصر ہے جس میں کل پانچ سو اڑتیس ووٹ ہیں جنھیں تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے بانٹا گیا ہے۔ مشیگن کے الیکٹورل کالج میں پندرہ ووٹ ہیں۔