طالبان کمانڈر بننے والے افغان استاد کو اب راہِ فرار کی تلاش
تدریس سے وابستہ شخص نے طالبان میں شمولیت اختیار کی اور کمانڈر بنا مگر اب وہ طالبان کی حکومت کے ہوتے ہوئے افغانستان سے فرار کی راہ ڈھونڈ رہا ہے۔
طالبان کی حکومت کو امریکا اور اتحادیوں نے مل کر اکتوبر 2001 میں ایوانِ اقتدار سے باہر کردیا تھا۔ اب بیس سال بعد طالبان کا اقتدار بحال ہوا ہے۔ طالبان کی حکومت میں لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا گیا ہے، خواتین کا کام کرنا ممنوع ہے اور سزائے موت دینے کا سلسلہ پھر شروع ہوچکا ہے۔
15 اگست 2021 کو طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے۔ طالبان کے اقتدار کی بحالی نے صدر اشرف غنی کو چلتا کیا۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا بھی مکمل ہوا۔ اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن کو شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
طالبان نے لڑکیوں کے اسکول مارچ 2022 میں کھولنے کا وعدہ کیا تھا مگر پھر اِس بیان سے پھرگئے۔ رواں سال طالبان کوئی وجہ بتائے بغیر بچوں کی پولیو ویکسی نیشن پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر لاکھوں افراد نے جان بچانے کے لیے ملک سے فرار ہونے کو ترجیح دی۔ ایک طالبان کمانڈر بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جو ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ اُسے لگتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ انڈیا ٹوڈے کی سسٹر ویب سائٹ آج تک سے گفتگو میں اس طالبان کمانڈر نے کہا کہ وہ بیماری کا بہانہ بناکر ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تدریس چھوڑ کر طالبان کی صفوں میں شامل ہونے والے اس کمانڈر نے بتایا کہ وہ ترکی، تاجکستان یا پھر شام میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ چونکہ تدریس سے وابستہ رہا ہے اس لیے دوبارہ اس شعبے کو اپنانے کا خواہش مند ہے۔ یہ استاد لڑکیوں کی بھی تعلیم کرتا رہا تھا۔
Comments are closed on this story.