بولڈ تصاویر پوسٹ کرنے پر تنقید کا شکار ہونیوالی علیزے شاہ کے جوابی وار
حال ہی میں پاکستانی شوبز انڈسٹری کی مشہور اداکارہ علیزے شاہ کی بولڈ تصاویر پر صارفین نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
علیزے شاہ نے صارفین کے تنقیدی تبصروں سے بچنے کے لیے کمنٹس سیکشن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اس کے باوجود بھی وہ خاموش نہ رہ سکیں اور خود کا دفاع کرتے ہوئے لوگوں کو جواب دیا۔
اداکارہ اس سے قبل بھی اپنے بولڈ لباس کے باعث لوگوں کے نشانے پر رہی ہیں اور اب علیزے شاہ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو اپلوڈ کی جس میں ان کا بولڈ لُک صارفین کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپلیکیشن انسٹاگرام پر مختلف اسٹوریز شئیر کیں جن میں ایک میں لکھا تھا کہ جھٹکا لگا نا! مجھے بھی لگا تھا جب مجھے وہ سب کہا گیا جو میں کبھی تھی ہی نہیں، اگر تمہیں اس سے خوشی ملتی ہے تو مجھے ولن ثابت کرتے رہو، لیکن ایسا ہے تو ایسا ہی ہے۔
ایک اور اسٹوری میں انہوں نے لکھا کہ ’خدا کرے تجھے موت تنہائی میں میسر ہو جس طرح میری آنکھ ساری رات بند نہیں ہوتی، تیری آنکھ بند کرنے کو بھی کوئی نہ ہو‘۔
جبکہ ایک اور اسٹوری میں علیزے شاہ نے ایک صحافی کو بھی جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ،’کیوں کہ یہ میرا انتخاب ہے کہ میں جو چاہے کروں، جو چاہے بنوں، ہر کوئی ایک (مشکل) دور سے گزرتا ہے اور اگر میں اس بارے میں بولنا چاہتی ہوں تو میں بولوں گی، اگر آپ کو مسئلہ ہے تو آپ نظر انداز کریں۔
اداکارہ نے لکھا کہ،’سچ کہوں تو مجھے تم جیسے نفرت کرنے والوں پر افسوس ہوتا ہے, تم لوگ بس حد سے زیادہ میرے بارے میں سوچتے رہتے ہو! مجھ سے نفرت صرف اس لیے کر رہے ہو کہ شاید تمہیں خود کبھی اتنی محبت نہیں ملی؟‘
جبکہ ایک اور پیغام میں اداکارہ نے لکھا کہ مجھے معلوم ہے کہ پاکستانی ہونے کے ناطے، اگر میرا فیشن سینس تھوڑا مختلف ہے تو لوگوں کے لئے یہ مسئلہ بن جاتا ہے، مگر کیا یہ واقعی میرا مسئلہ ہے؟
علیزے کا شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپ سب پاکستانی، اداکاراؤں کو فلموں میں چھوٹی سی چولی اور لہنگے میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر جب ہم اپنی پسند کا کچھ پہنتے ہیں تو آپ تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں؟ اور کیوں؟
علیزے کا اپنے ناقدین سے مزید سوال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ،’میں ایک ’پبلک فگر‘ہوں، ’پبلک پراپرٹی‘ نہیں! اس لئے اپنی فضول رائے اپنے پاس رکھیں!اب میں مزید برداشت نہیں کروں گی!‘
Comments are closed on this story.