Aaj News

بدھ, اکتوبر 23, 2024  
19 Rabi Al-Akhar 1446  

اسکول میں بچوں کو ان کی ذات کے لحاظ سے رسٹ بینڈ پہنانے کا انکشاف

یہ امتیازی سلوک تعلیمی نظام میں ایک سنگین معاملہ ہے
شائع 23 اکتوبر 2024 09:21am

نئی دہلی: تامیل نادو کے متعدد اسکولوں میں بچوں کو ذات کی بنیاد پررسٹ بینڈ پہننے پر مجبور کرنے کے معاملے پرڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے سینئر افسروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسے اسکولوں کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کریں۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، یہ سرکلر 2018 بیچ کے زیر تربیت آئی اے ایس افسروں کی شکایت کے بعد جاری کیا گیا۔ ڈائریکٹر نے کہا کہ ”تمام اہم تعلیمی افسروں“ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان اسکولوں کی شناخت کریں جہاں بچوں کے ساتھ اس طرح کا امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

شوہر کی لمبی عمر کیلیے ’ورت‘ رکھنے والی بیوی نے اسی روز زہر دے دیا

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض اسکولوں میں بچوں کو مختلف رنگوں کے رسٹ بینڈز، جیسے لال، پیلا، سبز، اور کیسریا پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے، تاکہ ان کی ذات کی شناخت ہو سکے۔ اس کے علاوہ، بچوں کو انگوٹھی بھی پہنائی جاتی ہے اور پیشانی پر تلک بھی لگایا جاتا ہے، جس سے ان کی ذات کی شناخت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔

تامیل نادو کیڈر کے ایک آئی اے ایس افسر نے کہا کہ یہ معاملہ مسوری میں لال بہادر شاستری نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن میں ہونے والی ایک چرچا کے دوران سامنے آیا، جس میں 180 افسروں نے اس موضوع کو اٹھایا۔

مدورے میں ایونڈینس ادارے کے سماجی کارکن کاتھر نے کہا کہ ریاست کے مختلف حصوں میں اس طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بعض آنگن باڑیوں میں غیر دلت بچوں کو اپنے برتن گھر سے لانے کی اجازت دی جاتی ہے، جو کہ ابتدائی تعلیم سے ہی امتیازی سلوک کا آغاز ہے۔

کاتھر نے مزید کہا کہ بعض بچوں نے اپنی یونیفارم کے نیچے ذات کے رہنماؤں کی تصویریں رکھنے والے لاکٹ پہنے ہوئے ہیں، جبکہ بعض اساتذہ دلت طالب علموں کو مائنس اورغیردلت طالب علموں کو پلس کہہ کرمخاطب کرتے ہیں۔

کاتھر نے دراوڑ کمیونٹی کے بچوں کے لیے اسکولوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کا چوتھا مقصد 2030 سے پہلے معیاری تعلیم کو یقینی بنانا ہے۔

یہ امتیازی سلوک اسپورٹس ٹیم کے انتخاب، کلاس میں دوبارہ ترتیب دینے، اور دوپہر کے کھانے کے دوران بھی دیکھا جاتا ہے، جو کہ تعلیمی نظام میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔

یہ صورتحال تامیل نادو میں تعلیمی اداروں کے اندر موجود ذاتی اور معاشرتی چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے، جہاں ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ صرف بچوں کی تعلیم بلکہ ان کی زندگیوں پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے

world

تعلیم