Aaj News

منگل, اکتوبر 22, 2024  
18 Rabi Al-Akhar 1446  

انسانی گوشت کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟ وی لاگر کا انڈونیشیا کے آدم خوروں سے انٹرویو

بہت سے کورووائی گروپ سیاحوں کو خوش کرنے کے لیے انسان کھانے کی کہانی سناتے ہیں
شائع 22 اکتوبر 2024 11:05am
بشکریہ کروسنگ انڈونیشیا
بشکریہ کروسنگ انڈونیشیا

بھارتی ٹریول ویلاگر دھیراج مینا نے حال ہی میں انڈونیشیا کے جنگلات میں موجود کورووائی قبیلے کا سفر کیا جو تاریخی طور پر انسانوں کو کھانے کی روایات کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ دھیراج نے اپنی یہ منفرد مہم اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی جس میں انہوں نے اس قبیلے کی زندگی اور روایات کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کے بارے میں پھیلی ہوئی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا۔

کورووائی قبیلہ انڈونیشیا کے صوبہ پاپوا کے دور دراز علاقوں میں صدیوں سے الگ تھلگ زندگی گزار رہا ہے۔ یہ قبیلہ شکار، مچھلی پکڑنے اور جنگلی پھلوں سے اپنا گزر بسر کرتا ہے۔ ماضی میں ان کے انسانوں کو کھانے کی روایت نے بیرونی دنیا میں بہت دلچسپی پیدا کی تھی۔ حالانکہ مینا نے اپنے تجربے میں یہ بات دریافت کی کہ قبیلے میں یہ روایت اب ختم ہو چکی ہے۔

دھیراج نے قبیلے تک پہنچنے کے لیے ایک طویل سفر طے کیا جس میں ہوائی جہاز کی پرواز، دس گھنٹے کی کشتی کا سفر اور پھر چار گھنٹے کا جنگل کا پیدل راستہ شامل تھا۔ دھیراج نے اپنے انسٹاگرام پر لکھا، ”کورووائی انتہائی دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور آج بھی روایتی طرز زندگی کو برقرار رکھتے ہیں“۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قبیلہ بلند درختوں پر بنے گھروں میں رہتا ہے اور مرد و عورت الگ الگ گھروں میں مقیم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمی حالات کی وجہ سے قبیلے کے افراد بہت کم لباس پہنتے ہیں۔

دھیراج نے کورووائی کے افراد سے ماضی میں انسانوں کو کھانے کی روایت کے بارے میں پوچھا۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ ان کے والد کے زمانے میں تقریباً 16 سال پہلے تک انسانوں کو کھانا عام تھا لیکن اب یہ عمل ختم ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ روایت زیادہ تر قبیلوں کے درمیان جنگوں کے دوران ہوتی تھی خاص طور پر اس وقت جب ایک گروپ دوسرے گروپ کی عورتوں کو اغوا کرتا تھا۔

دھیراج نے وضاحت کی، ”کورووائی اپنے ماضی کے بارے میں مشہور ہیں جہاں قبائلی جنگوں کے دوران وہ حریفوں کو قتل کرکے ان کا گوشت کھا لیتے تھے، لیکن اب یہ روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔“

حالانکہ کورووائی کا ماضی خوفناک تھا مگر مینا کا کہنا تھا کہ انہوں نے قبیلے کے لوگوں کو انتہائی دوستانہ اور مہمان نواز پایا۔ انہوں نے کئی دن قبیلے کے ساتھ گزارے ان کی روایات اور رسم و رواج کو قریب سے دیکھا۔

ایک متنازعہ سوال کے دوران مینا نے قبیلے کے ایک فرد سے پوچھا کہ انسان کا گوشت کیسا ہوتا ہے؟ بزرگ نے بتایا کہ ان کے والد نے کبھی انسانوں کو کھایا تھا لیکن اب قبیلہ یہ عمل نہیں کرتا۔ ماضی میں محققین اور تاریخ دانوں نے انسان کے گوشت کا ذائقہ سور یا ویل کے گوشت جیسا بتایا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان اور محققین کا کہنا ہے کہ کورووائی قبیلے کی یہ روایت 21ویں صدی کے آغاز میں بیرونی دنیا سے بڑھتے ہوئے رابطے کے بعد ختم ہو چکی ہے۔ تاہم بعض تحقیقات کے مطابق کچھ کورووائی گروہ اس روایت کو سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آج بھی برقرار رکھتے ہیں۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے محقق کرس بالارڈ نے 2006 میں سڈنی مارننگ ہیرالڈ کو بتایا تھا کہ ”بہت سے کورووائی گروپ سیاحوں کو خوش کرنے کے لیے انسان کھانے کی کہانی سناتے ہیں۔“