سینیٹ کے بعد 26ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظور، حکومت کی دو تہائی اکثریت ثابت
سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 26ویں آئینی ترامیم کی تمام 27 شقیں منظور کرلی گئیں، اس دوران حکومت نے باآسانی اپنی دو تہائی اکثریت ثابت کی۔ قومی اسمبلی سے بھی منظوری کے بعد مسودہ فوری طور پر صدر کو بھجوایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف زرداری پیر کی صبح آئینی ترمیم کے مسودہ پر دستخط کریں گے، دستخط کے بعد چھبیسویں آئینی ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔
ایوان زیریں سے منظوری کے بعد وزیرِ اعظم نے آئینی ترمیم کی توثیق کیلئے صدر پاکستان کو ایڈوائس بھیج دی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس نصف شب سے پہلے شروع ہوا اورفجر تک جاری رہا۔ اراکین کی جانب سے تقاریر ہوئیں اور تلخی بھی دیکھی گئی۔
اتوار کو سینیٹ میں بل پیش ہوتے ہی نواز شریف اور حمزہ شہباز 26ویں آئینی ترامیم پر رائے شماری میں حصہ لینے کیلئے خصوصی طیارے سے اسلام آباد روانہ ہوئے۔
نصف شب سے ذرا پہلے اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ پانچ آزاد اراکین کو بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا، جنہیں پارلیمنٹ ہاؤس کی چوتھی منزل پر رکھا گیا، اس دوران پارلیمنٹ ہاؤس کے مذکورہ حصے میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے۔
اجلاس سے قبل نواز شریف نے شہباز شریف سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی، پی ٹی آئی نے بھی عمر ایوب کے چیمبر میں اپنے اتحادیوں کی بیٹھک سجائی اور پھر پی ٹی آئی وفد نے مولانا عطالرحمان کے چیمبر میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں حکمران اتحاد کا اہم اجلاس ہوا، جس میں بلاول بھٹو، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات عطا تارڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی، ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار شریک ہوئے۔
ذرئع کے مطابق اجلاس میں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کی حکمت عملی طے کی گئی۔ اسپیکر کو سینیٹ کی طرز پر قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ بند رکھنے کا مشورہ دیا گیا، آئینی ترامیم کی منظوری کی خوشی میں ملازمین کو ایک دن کی چھٹی دینے پر غور کیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس
قومی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے 5 گھنٹے کی تاخیر سے رات ساڑھے 11 بجے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، جس کے فوراً بعد اجلاس اگلے دن 21 اکتوبر 2024 کی رات 12 بج کر 5 منٹ تک موخر کرنے کی تحریک پیش کی گئی۔
اس دوران نواز شریف ایوان میں شہباز شریف کے ہمراہ پہنچے تو لیگی اراکین نے ”شیر شیر“ کے نعرے لگائے، بلاول بھٹو نے ایوان میں نوازشریف کا استقبال کیا اور ان سے بات بھی کی۔
اس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے اظہار خیال کیا اور وہی باتیں اور تفصیلات ایوان کے گوش گزار کیں جو سینیٹ اجلاس میں کی تھیں۔
اس دوران مولانا فضل الرحمان ایوان میں پہنچے تو بلاول بھٹو نے فضل الرحمان کا استقبال کیا، مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کی نشست پر جاکر ان سے مصافحہ کیا اور انہیں گلے لگایا۔
ایوان سے بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان، خواجہ آصف اور عمر ایوب نے خطاب کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی کامیابی میں میرا نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کا سب سے بڑا کردار ہے۔ علاوہ ازیں انہوں ںے اپنی تقریب میں ایسے واقعات کا تذکرہ کیا جس میں عدلیہ کے مبینہ غلط فیصلوں کی وجہ سے متعدد اہم سیاسی شخصیت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ مزید تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریب میں 18 ویں اور 19 ویں ترامیم کے تناظر میں بتایا کہ کس طرح اختیار ملنے کے بعد واپس بھی لے لیے گئے۔ انہوں ںے حکومت پر تنقید بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کروں گا۔ مزید تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔
پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے اپنے خطاب میں آئینی ترمیم کے معاملے پر حکومتی اتحاد پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کھل کر آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ’بدبودار‘ قرار دیا اور بتایا کہ کس طرح اراکین کی خرید و فروخت کا سلسلہ گرم رہا۔ مزید تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ ووٹ کو عزت جج نہیں دیتے، پارلیمنٹ دیتی ہے، عدلیہ اور پارلیمان کا جھگڑا پچھلے کئی سال سے چل رہا ہے، کچھ لوگ سیاسی بن چکے، وہ پارلیمان کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ مزید تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں پارٹی کی حمایت کی وجہ بتائی اور زور دیا کہ بلدیاتی نظام ہی نچلی سطح پر مسائل کو دور کرسکتے ہیں۔ مزید تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے محکوم بنایا جائے گا۔ انہوں نے پاکستان کی آئینی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا۔ مزید تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں۔
ووٹنگ کا عمل، حکومت نے دو تہائی اکثریت ثابت کردی
لیڈران کے خطابات کے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو قومی اسمبلی میں حکومت نے دوتہائی اکثریت ثابت کردی، قومی اسمبلی کے اجلاس میں ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ حق میں 225 ووٹ دیئے گئے۔
اس کے بعد اپوزیشن واک آؤٹ کرکے لابی میں چلی گئی، جبکہ عمر ایوب اور صاحبزادہ حامد رضا ایوان میں گنتی کی ویڈیو بناتے رہے۔
اس دوران شق وار منظوری کے دوران 27 شقوں کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا۔
چار آزاد اراکین قومی اسمبلی مبارک زیب، ظہور قریشی، عثمان علی اور اورنگزیب کھچی نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے۔ انہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین کہا جا رہا تھا۔ اپنی تقریر کے دوران عمر ایوب نے انہیں حکومتی بینچوں سے اٹھا کر اپوزیشن بینچوں پر بٹھانے کا مطالبہ کیا تاہم خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان اراکین نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑا اور ان کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں ۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحادی اراکین کی تعداد 215 ہے اور آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے۔
’بانی پی ٹی آئی کی خوشامد کرکے کیا محسوس ہورہا تھا؟‘ صحافی کے سوال پر فضل الرحمان برہم
اسمبلی میں ن لیگ کے 111، پیپلز پارٹی 70، ایم کیوایم کے 22 ارکان، ق لیگ 5 اور استحکام پاکستان پارٹی کے 4 اراکین ہیں۔ نیشنل پارٹی، ضیاء لیگ اور بی اے پی کا بھی ایک ایک رکن اسمبلی کا حصہ ہے۔
آئینی ترمیم کیلئے جمعیت علماء اسلام کے 8 ووٹ ملنے کے بعد حکومت کے ووٹ 223 ہوگئے۔
لیکن حکمران اتحاد کے 3 افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہے، اس طرح تعداد 211 اور جے یو آئی کے 8 اراکین کی حمایت کے ساتھ یہ تعداد 219 بنی اور حکومت کو آئینی ترمیم پاس کروانے کیلئے مزید 5 ارکان کی ضرورت پیش آئی۔
اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 8 ہے، سنی اتحاد کونسل کے 80 اراکین ہیں، بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخواہ میپ کا ایک ایک رکن ہے۔
لیکن دوران اجلاس ظہور قریشی، عثمان علی، مبارک زیب ایوان میں پہنچا دیئے گئے، مسلم لیگ ق کے منحرف رکن الیاس چوہدری کی بھی حکومتی صفوں پر واپسی ہوئی اور یوں حکومت کے آئینی گیم کے لئے نمبرز پورے ہوگئے۔
بعدازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس بروز منگل 22 اکتوبر 2024 شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
Comments are closed on this story.