Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے سینیٹ میں منظور، پی ٹی آئی کا کوئی رکن منحرف نہیں ہوا

منظور شدہ آئینی ترامیم کی تفصیات جاری
اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2024 12:26am
Senate approves 26th constitutional amendment by two-thirds majority - Aaj News

حکومت نے سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترامیم بل 2024 کی تمام 22 شقوں کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرالیا ہے، جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ قبل ازیں، چئیرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت میں سینیٹ اجلاس میں پیش کی گئی آئینی ترامیم میں حکومت کو 65 ووٹ ملے، جبکہ پی ٹی آٸی کا کوٸی سینیٹر منحرف نہ ہوا، پی ٹی آٸی کے کسی رکن سینیٹر نے بل کی حمایت میں ووٹ نہیں ڈالا۔

حکومت کو ملنے والے 65 ووٹوں میں 24 پیپلز پارٹی کے، 19 ن لیگ کے، 5 جے یو آئی کے، 4 بلوچستان عوامی پارٹی کے، 3 ایم کیو ایم کے، 3 اے این پی کے، 2 بی این پی کے، ایک ووٹ ق لیگ کا شامل تھا۔

اسی طرح انوارالحق کاکڑ، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور عبدالقادر نے بطور آزاد اراکین ووٹ دئے۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا تو قائد ایوان اسحاق ڈار نے ایوان میں وقفہ سوالات اور معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی اور اس تحریک کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر اسپیکر کی ہدایت پر کمیٹی بنائی گئی اور اس کمیٹی میں بغور اس کا جائزہ لیا گیا ہے، اس کو بل کو سپلیمنٹری ایجنڈے میں دیا گیا ہے لہٰذا اس کو ٹیک اپ کیا جائے۔

63 اے مسودے میں شامل نہیں ہے، اعظم نذیرتارڑ

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کیلئے کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں کافی بات چیت کی گئی، اپوزیشن نے بھی کمیٹی میں بحث میں حصہ لیا اور ایک مسودہ پر اتحادی جماعتوں کا اتفاق ہوا، یہ ایک متفقہ بل ہے جس پرکامران مرتضیٰ کی ترامیم بھی ہیں۔

اس کے بعد وزیرقانون اعظم نزیرتارڑ نے آئین میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 63 اے مسودے میں شامل نہیں ہے، اٹھارویں ترمیم میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا اور اس میں پارلیمان نے بڑی محنت اور طویل غور و فکر کے بعد ایک ایسا نظام متعارف کروایا جس میں اعلیٰ عدالتوں یعنی ہائی کورٹس، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں ججز کی تقرری کو شفاف بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس نظام کو میرٹ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تاکہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ہو۔ وزیراعظم اور صدر نے اپنے اختیارات پارلیمان کو منتقل کر دیے تاکہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو جج صاحبان، پاکستان بار کونسل کے نمائندے، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر امیدواروں کے کوائف پر غور و خوض کیا جائے اور ان کی نامزدگیاں فائنل کرکے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائیں، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی برابر ہو۔

آئینی ترمیم کے 26 نکاتی مسودے کی تفصیلات

ان کا کہنا تھا کہ اس پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی نامزدگی کو واپس بھیج سکتی ہے یا مسترد کر سکتی ہے۔ تاہم، اس دوران سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی اور اس کیس کو سننے کے دوران اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اختیارات کا توازن سپریم کورٹ کو نہیں دیا گیا تو یہ ترامیم منسوخ ہو جائیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی کے خلاف یہ ایک کھلا عدم اعتماد تھا اور یہ پارلیمان پر حملے کے مترادف تھا۔

وزیر قانون کے مطابق اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جلدی میں انیسویں ترمیم کی گئی، جس میں کمیشن کی ساخت میں تبدیلی کی گئی اور اس کا جھکاؤ اعلیٰ عدلیہ کی طرف کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات بھی محدود کر دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ 2010 سے ان 14 سالوں میں اپوائنٹمنٹ کے اس طریقہ کار کو ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور پارلیمان سمیت دیگر اداروں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور بارہا مطالبہ کیا گیا کہ اسے دوبارہ جائزہ لے کر اٹھارویں ترمیم کی اصل روح کے مطابق بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی بارہا کہا گیا کہ یہ نظام پرانے نظام سے کمزور ہے، جس میں ججز کی تقرری صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوتی تھی۔ اس پس منظر میں آئین کے آرٹیکل 175 اے میں مناسب ترامیم کی تجویز دی گئی اور پچھلے چھ سے آٹھ ہفتوں کے دوران مختلف مشاورت کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی نئی ساخت بنائی گئی، جسے آج اس بل کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں چار سینئر موسٹ ججز اور چار پارلیمانی ممبران پر مشتمل ہوگا۔

وزیر قانون نے بتایا کہ جب قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو اس وقت سینیٹ سے اراکین کمیشن میں جائیں گے، مجوزہ ترمیم میں اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر پورا اترنے والے پارلیمنٹ سے باہر کی خاتون یا اقلیتی رکن کو نامزد کرسکیں گے، انہوں نے کہا کہ کمیشن میں صوبوں کی نمائندگی کو برقرار رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی بینچ کی سربراہی کرنے والے جج، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، پاکستان بار کونسل کا 2 سال کیلیے نامزد کردہ کم ازکم 15 تجربے کا حامل وکیل، دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے2، 2 ارکان اس کمیشن میں شامل کیے جائیں گے اور اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے 2، 2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ کے بارے میں پراپیگنڈا کیا گیا، قاضی فاٸز عیسی ٰسے آفیشلی تین ملاقاتیں کی، تینوں ملاقاتوں میں چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے، جو بھی رولزحکومت بنائے گی وہ موجودہ چیف جسٹس کے بعد لاگو ہوں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس آئے تو دروازے ایسے کھولے کہ سوموٹو نوٹس کی یلغار ہوگٸی، سپریم کورٹ نے منتخب وزراعظم کو گھر بھجوایا، اس عدالتی طریقوں اور بند دروازوں کے پیچھے جو ہوتا رہا اسے ہم نہیں مانتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آٸینی عدالت سے پیچھے ہٹ کر آٸینی بنچ پر اتفاق کیا، چیف جسٹس پاکستان کی تقرری اور میعادِ عہدہ آٸینی ترمیم میں شامل ہے، چیف جسٹس کی میعاد ماضی میں چھ سے سات سال بھی رہی، بل میں چیف جسٹس پاکستان کی میعاد مدت تین سال رکھی گٸی ہے، چیف جسٹس پاکستان کیلٸے تین سینٸر ججز کے ناموں پر غور ہوگا، بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی دو تہاٸی اکثریت سے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا تقرر 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرے گی، چیف جسٹس پاکستان کی تقرری بھی سنئیر موسٹ کی بجائے تین سنئیر موسٹ ججوں میں سے ہوگا، چیف جسٹس کی تقرری کے لیے وزیراعظم نے اپنا اختیار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی جو اکثریت سے فیصلہ کرے گی اس کا نام وزیراعظم بھجوا دیں گے، پارلیمانی کمیٹی کا نام وزیر اعظم کی جانب سے صدر مملکت کو ارسال کریں گے۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ صوباٸی اور اسلام آباد ہاٸی کورٹس میں بھی آٸینی بنچ بنایا جائے گا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ اضافی شقیں بل میں شامل کرنے کیلٸے پیش کریں گے، حکومت جے یو آٸی ف کی ان پانچ تجاویز کو سپورٹ کرے گی، مولانا فضل الرحمان کی حمایت پر ان کے مشکور ہیں۔

وزیرقانون نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 9 اے کو شامل کیا گیا ہے، جمعیت علمائے اسلام نے 5 ترامیم دی ہیں اور کامران مرتضیٰ وہ ایوان میں پیش کریں گے، ماحولیاتی تحفظ کے لیے 9 اے آرٹیکل کا اضافہ کیا گیا ہے، ہر شخص کو صاف ستھری آب وہوا میں رہنے کا حق ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر بھی جوڈیشل کمیشن کرے گا، اسلامی نظریاتی کونسل ربا کے حوالے سے پانچ تجاویز انہوں نے دی ہیں، ایوان سے استدعا ہے اچھی نیت سے کام شروع کیا تھا، مولانا فضل الرحمان کے شکر گزار ہیں بات چیت کے بعد انہوں نے اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام آدمی کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے یہ کام کیا ہے، وزیراعظم نے اپنے کچھ اختیارات چھوڑے ہیں۔

مولانا نے حکومت کے خطرناک بل سے ہمیں بچایا، ان کے شکرگزار ہیں: بیرسٹر علی ظفر

وزیر قانون کے بعد پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آٸین رضامندی اور اتفاق رائے سے بنتا ہے، رضامندی اور اتفاق رائے نہ ہو تو وہ آئین خود اپنی موت آپ ہی مرجاتا ہے، 1956 اور 1962 میں آٸین لایا گیا تو مارشل لا لگ گیا اور آئین مر گیا، آٸینی ترمیم کرکے 58 ٹوبی کے ذریعے جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا، اس آرٹیکل سے حکومتوں کو گھربھجوایا گیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آٸینی ترمیم کیلٸے اتفاق رائے ضروری ہے، میرے کچھ ساتھی یہاں موجود ہیں، باقی کچھ ساتھی ڈر رہے ہیں کہ کہیں انہیں اغوا نہ کر لیا جائے، لوگوں کو زبردستی لوٹا بنایا جارہا ہے، لوگوں کو زدوکوب اور ڈرا دھمکا کر ووٹ لیا جارہا ہے، ڈرانے دھمکانے کا عمل اتفاق رائے نہیں ہے، ڈرانا اور دھمکانا آئین وقانون کے خلاف ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے اسپیکر سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے حکومت آج بل منظور کروا لے، لیکن ہمارے لوگوں کا ووٹ شامل کیا گیا تو آپ وہ گنتی میں شامل نہ کریں۔ اگر ہمارے لوگوں کو استعمال کرنا چاہیں گے تو میرے پاس ایک ڈاکومنٹ ہے۔ جب یہ ترمیم آرہی تھی تو 63 اے کی رو کو سامنے رکھتے ہوئے پارلیمینٹری میٹنگ میں فیصلہ کیا تھا کہ کسی بھی آئینی ترمیم کو سپورٹ نہیں کریں گے، اس حوالے سے تمام سینیٹرز کے دستخط بھی لیے تھے۔ تو ان میں سے اگر کوئی آج کوشش کرے گا تو ان کا ووٹ نہ گنیں، یہ ہمارا مؤقف ہے۔ اگر ہمارا کوٸی رکن اس آٸینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے گا تو اسے نکال دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہر پارلیمانی اجلاس میں بیٹھے ہیں، لیکن کوٸی بھی آٸینی ترمیم کے حوالے سے تجویز نہیں دی، ہم آٸینی ترمیم کیلٸے کسی پراسس کا حصہ نہیں تھے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آٸی کا فیصلہ تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے بغیر آٸینی ترمیم کو سپورٹ نہیں کریں گے، بانی پی ٹی آئی کو کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، بانی پی ٹی آئی کا اخبار یا ٹی وی بھی دستیاب نہیں تھا، بانی پی ٹی آئی سیاسی صورتحال سے واقف نہیں تھے، ان کا بل بہت خطرناک تھا، جے یو آئی نے اچھا اقدام اٹھایا، آٸینی ترمیم کے آغاز میں مقصد بہت ہی خطرناک تھا، ہمارے بنیادی حقوق آرٹیکل 8 کے ذریعے ختم کٸے جا رہے تھے، من پسند آٸینی عدالت بنا کر من پسند ججز تعینات کٸے جا رہے تھے، ہم نےپوچھا کہ بل کی منظوری کیلئے جلدی کیا ہے؟ لگتا ہے کہ حکومت کیلٸے 25 تاریخ بہت اہم ہے، موجودہ چیف جسٹس 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں، ہم کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، یہ کوئی عام اقدام نہیں آئینی ترمیم ہے، آٸینی عدالت کی بجائے آٸینی بنچ بنادیا گیا، حکومت اپنے جج آٸینی بنچ میں شامل کرے گی، ججز کی تقرری کا ایک شفاف طریقہ کار ہوتا ہے، مولانا نے حکومت کے خطرناک بل سے ہمیں بچایا ہے، ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آٸی نے کہا وہ جلد بازی نہیں کریں گے، ہماری بانی پی ٹی آٸی سے دوبارہ اس معاملے پر ملاقات نہیں ہوسکی، ہم ایسے آٸینی ترمیم پاس کریں گے تو جمہوریت پر بہت بڑا دھبہ ہوگا، ہمیں سمجھ ہے کہ آٸینی ترمیم نے پاس تو ہو ہی جانا ہے،لیکن اس آٸینی ترمیم میں بہت خامیاں ہیں جنہیں واپس لینے میں بہت مشکلات ہوں گی۔

ہم کالے ناگ کے سامنے بین نہیں بجاتے اسے وہی ختم کردیتے ہیں، شیری رحمان

پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو مشاورت کیلئے دعوت دی، پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے ذریعے وفاق کو بچایا، کیا جوڈیشل سسٹم کوتوڑانہیں گیا؟

شیری رحمان نے کہا کہ موجودہ آئینی ترمیم کوئی حملہ نہیں، ہم بہت قربانیاں دے کر یہاں تک پہنچے ہیں، کیا ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم حقوق کیلئے قانون سازی کریں۔

شیری رحمان نے مزید کہا کہ ہم کالے ناگ کے سامنے بین نہیں بجاتے اسے وہی ختم کردیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے بہترین لیڈر شپ کا مظاہرہ کیا، بلاول بھٹو نے شراکت داری کا داٸرہ بڑھایا۔

انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری میں پارلیمنٹ کا ہاتھ ہوگا تو کیا غلط ہے، ہم سے ہمارے حقوق نہ لئے جائیں، دنیا بھر میں آئینی عدالتیں ہوتی ہیں، آئینی عدالتوں میں اقلیتیں اور خواتین بھی ہوں گی، بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی بھی اپنی مشاورت لاتی، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ججز خود ہی طے کرلیں کہ کون آگے جائے گا کون نہیں، اس میں کونسا حملہ ہے؟ کونسا ناگ ہے؟ شراکت داری سے سب کام کیا جا سکتا ہے۔

بانی پی ٹی آئی ختم، بانی پی ٹی آئی قید ہوچکا، آگے بڑھو: ایمل ولی خان

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ایمل ولی خان نے سینیٹ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 26 نکات پر اتفاق کیا تھا، لیکن آج 22 نکات پیش کیے گئے۔

ایمل ولی خان نے کہا کہ پاکستان کو جسٹس قاضی فائز جیسے ججز کی ضرورت ہے۔ لوگ ہمیں یاد کریں گے کہ ثاقب نثار، جسٹس گلزار اور کھوسہ جیسے ججز کی تقرری روک دی ہے، جوڈیشری کو لاہوری اور ٹرکوں والے گروپ کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے ججز کا تقرر نہیں کرنا تو کیا کلاس فور کا آفسر تقرر کرے گا۔

انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ختم، بانی پی ٹی آئی قید ہوچکا، بھائی آگےبڑھو، کب تک بانی پی ٹی آئی کا انتظار کرو گے؟

ایمل ولی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی جو بھی بل آئے گا اس کی مخالفت کرے گی، علی ظفر ہر میٹنگ میں شرکت کرتے تھے لیکن انہوں نے کوئی شق پیش نہیں کی، پی ٹی آٸی والے خود اپنے چیٸرمین کو نہیں مانتے۔

بیرسٹرعلی ظفر نے ایمل ولی کی تقریر کے دوران نشست پرکھڑے ہو کر احتجاج کیا تو ایمل ولی خان نے کہا کہ آپ نے ڈاٸیلاگ مارے تو ہم نے سنے، آپ کو بھی ہماری بات سننی چاہیے۔

ایمل ولی خان نے کہا کہ نو مٸی کو جس نے بھی دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا اس کے خلاف کاروواٸی ہونی چاہیے، ہمیں دفاعی اداروں سے ہزاروں شکایات ہیں ، پی ٹی آءی کو کیا شکایت؟ صرف یہ کہ ان کا بانی قید کیا گیا، پی ٹی آٸی کا تو صرف بانی ہی قید ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کو دشمنوں سے بچا کر رکھنا ہوگا، سرکاری اور ذاتی تنصیبات پر حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں، آپ کا بس چلے تو پورے کے پی کو بند کر دیں، لیکن بتا دوں کہ انشااللہ پورا پاکستان چلتا رہے گا۔

عدالت اپنا کام فعال طریقے سے کرے تو بل عوام کیلئے ہے، فیصل سبزواری

ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر فیصل سبزواری نے کہا کہ پوچھا جاتا ہے ترمیم سےعوام کیلئے کیا بہتری ہے، ہمیں بتانا چاہئیے کہ عدالت اپنا کام فعال طریقے سے کرے تو بل عوام کیلئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے کیس دس دس سال تک نہیں لگتے، کوٸی معروف رہنما ایک دن تقریر کردے تو اگلے روز سوموٹو ہوجاتا تھا، یہ ایک بہت بڑاپلندا تھا، ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ آئینی ترمیم کے مسودے پر بہت کام کیا گیا، خصوصی کمیٹی میں تمام جماعتوں نے بہت کام کیا، آئینی ترمیم اس لئے ہے کہ عدالتی نظام بہتر ہو۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں کے بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیئے گئے، بلدیاتی نظام کو اختیار نہ ملنا بدقسمتی ہے۔ بدقسمتی کیساتھ کسی بھی صوبے میں بلدیاتی نظام کے حقوق نہیں دیٸے گٸے، بلدیاتی حکومتیں چلی جاتی ہیں لیکن ان کے الیکشن نہیں ہوتے، لوکل گورٸمنٹ کا انتخاب بھی وقت پر ہونا چاہیے۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ جوڈیشل ریفامرز کی طرح عوام دوست ریفارمز ضروری ہے، فعال ترین بلدیاتی نظام دینا ہوگا یا پھر نیا انتظامی یونٹ دینا ہوگا۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ آج جو آئین سازی ہورہی ہے وہ پارلیمان کا حق ہے، ہم پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اسٹیبلیشمنٹ نے بارہا کوشش کی کہ آٸین میں ایسی چیز ڈال دی جائے کہ جس سے ملک محفوظ نا رہے، عطا الرحمان

جے یو آٸی کے پارلیمانی لیڈر مولانا عطا الرحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو آج تک بچایا گیا ہے تو آٸین نے بچایا ہے، آج پارلیمنٹ محفوظ ہے تو وہ بھی آٸین کی وجہ سے، اسٹیبلیشمنٹ نے بارہا کوشش کی کہ آٸین میں ایسی چیز ڈال دی جائے کہ جس سے ملک محفوظ نا رہے، آٸین میں رخنہ ڈالا جائے یا ایسی چیز ڈال دی جائے جس سے ملک کے مستقبل پر خطرہ پڑے۔

مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ آٸینی ترمیم ایسے ہی پاس کردی جاتی تو ملک کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوجاتے، ہم نے مل کر آٸینی ترمیم کا جاٸزہ لیا، جے یو آٸی ف آٸینی ترمیم کے معاملے پر اسی فیصد کامیاب رہی ہے، جے یو آٸی ف کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے تھے۔

مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ ہم پی ٹی آٸی کو دعوت دیتے ہیں کہ جے یو آٸی کا ساتھ دیں، ترمیم میں جو گند تھا جو سانپ کے دانت تھے وہ جے یو آٸی نے توڑ دئے، جے یو آٸی ف آٸینی تریم کو ووٹ دے گی اور سپورٹ کرے گی۔

بی این پی کے منحرف سینیٹر کی ایوان آمد

ان تقاریر کے درمیان بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سینیٹرز نسیمہ احسان اور قاسم رونجھو ایوان میں پہنچے۔ خیال رہے کہ قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان مبینہ منحرف ارکان میں شامل ہیں۔

جے یو آئی کے مبینہ لاپتہ سینیٹر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے

صحافی نے قاسم رونجھو سے سوال کیا کہ کیا آپ کو اغوا کیا گیا؟ جس پر قاسم رونجھو کا کہنا تھا کہ میں اپنے گھر سے آرہا ہوں اور میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دوں گا۔

26ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری

سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا، چیئرمین سینیٹ نے لابی اور گیلری خالی کروانے کی ہدایت کی اور 26ویں آئینی ترمیم کے بل کی کاپیاں اراکین میں تقسیم کردی گئیں۔ ساتھ ہی ایوان بالا کی لابیز بھی لاک کر دی گٸیں۔

اس دوران اپوزیشن کی جانب سے رانا ثنا اللہ اور اٹارنی جنرل کو بھی باہر بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ایوان میں بیٹھنا ان کا حق ہے۔

26ویں آئینی ترمیم کی پہلی شق کے حق میں حکومت کو 65 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن کے 4 اراکین نے مخالفت کی۔ اپوزیشن ارکان میں علی ظفر، عون عباس پبی، حامد خان اور علامہ ناصر عباس شامل ہیں۔

سینیٹر کامران مرتضی کی جانب سے جے یو آٸی (ف) کی ترامیم ایوان میں پیش کی گئیں، پی ٹی آٸی نے جے یوآٸی کی ترامیم کی مخالفت نہیں کی۔

جمعیت علمائے اسلام نے آئین کے آرٹیکل 38 کے پیراگراف ایف میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جس میں کہا گیا کہ سودی نظام کاخاتمہ جتنا جلدی ممکن ہو کیا جائے گا، حکومت کی حمایت پر ایوان نے آرٹیکل 38 میں ترمیم منظور کرلی۔

اس کے بعد پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے اراکین ایوان سے چلے گئے۔

آرٹیکل 48 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی کہ وزیراعظم اور کابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹریبیونل اور کوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی، سینیٹ نے آرٹیکل 48 میں مجوزہ ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی۔

سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 81 میں ترمیم کی منظوری دی، آرٹیکل 81 میں ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کو شامل کردیا گیا ہے۔

سینیٹ سے منظوری ہونے والی آرٹیکل 177 میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا، آرٹیکل 177 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے ہائی کورٹ میں بطور جج 5 سال کام کرنے کی حد مقرر ہوگی، کسی بھی وکیل کا سپریم کورٹ جج بننے کے لیے بطور وکیل 15 سال کی پریکٹس لازم ہوگی۔

آئین کے آرٹیکل 179 میں ترمیم بھی دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے، جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان 65سال کی عمرمیں ریٹائرہوں گے۔

سینیٹ نے آرٹیکل 184 میں ترمیم کی بھی منظوری بھی دی، جس کے تحت سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا ہے اور آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورا از خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا۔ آرٹیکل 186 کے تحت ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچز کے ہوں گے۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

آرٹیکل 186 اے میں ترمیم بھی سینیٹ میں منظور کرلی گئی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی گئی۔

آرٹیکل 175 اے میں ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور

سینیٹ میں عدلیہ سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں ترمیم سینیٹ میں دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججوں تقرری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا، ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن 13 اراکین پر مشتمل ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔

کمیشن میں سپریم کورٹ کے چارسنیئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سنیئر وکیل پاکستان بارکونسل، دواراکین اسمبلی اور دواراکین سینٹ شامل ہوں گے جو بالترتیب حکومت اوراپوزیشن سے لیے جائیں گے اور ان کی نامزدگی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر کریں گے۔

ترمیم کے مطابق آرٹیکل 175 اے کی شق 3 اے کے تحت 12 اراکین پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے 8، سینیٹ سے چار اراکین کو لیا جائے گا، قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام اراکین سینیٹ سے ہوں گے۔

خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی لیڈر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اراکین اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کے مجاز ہوں گے، اسپیکر قومی اسمبلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جا ری کریں گے۔

چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل سنیارٹی لسٹ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو سنئیر ترین ججوں کے نام بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی تین ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرکے وزیراعظم کو ارسال کرے گی، وزیراعظم چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام صدرکو ارسال کریں گے۔

سینیٹ سے منظور ہونے والی ترمیم کے مطابق سنیارٹی لسٹ میں موجود نامزد ججوں کے انکار پر پارلیمانی کمیٹی اگلے سنیئر ترین جج کے نام پر غور کرے گی، پارلیمانی کمیٹی نامزدگیوں پر اس وقت تک جائزہ لے گی جب تک چیف جسٹس کا تقرر نہ ہوجائے۔

26ویں آئینی ترمیم کے منظوری کے بعد چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے کے پابند ہوں گے اور چیف جسٹس کی تعنایت کے لیے خصوصی پارلیمانی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا، قومی اسمبلی تحلیل ہوجانے کی صورت میں دو اراکین سینیٹ سے لیے جائیں گے، آرٹیکل 68 کا اطلاق چیف جسٹس تقرری سے متعلق قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی پروسیڈنگ پر نہیں ہوگا۔

ترمیم میں کہا گیا کہ سپریم جودیشل کمیشن کو ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ بنیادوں پر کارگردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہوگا، ہائی کورٹ میں جج کی تقرری غیر تسلی بخش ہونے پر کمیشن جج کو کارگردگی بہتر بنانے کے لیے ٹائم فریم دے گا اور دی گئی ٹائم فریم میں جج کی کارگردگی دوبارہ غیر تسلی بخش ہونے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بجھوائی جائے گی۔

ترمیم کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس ہائی کورٹس یا کمیشن میں موجود ججوں کی غیر تسلی بخش کارگردگی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی، سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے جج کو مذکورہ ترمیم کے تحت ہٹایا جا سکے گا، کونسل جسمانی یا ذہنی معذوری، غلط برتاؤ اور دفتری امور بہتر انجام نہ دینے پر کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی درخواست پر انکوائری کرے گا۔

آئینی ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل بنا تاخیر کے 6 ماہ کے اندرمتعلقہ ججوں سے متعلق انکوائری مکمل کرنے کا پابندی ہوگی، جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں فرائض کی انجام دہی میں قاصر، بد تمیزی یا غیر تسلی بخش کارگردگی کے مرتکب ہونے پر صدر مملکت کو کارروائی کا اختیار ہوگا۔

صدر مملکت کے پاس جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہوگا، ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن کا اجلاس ایک تہائی اراکین کی درخواست پر بلایا جا سکے گا، چیئرمین کمیشن کسی بھی درخواست پر 15 دن کے اندر کمیشن کا اجلاس بلانے کا پابند ہوگا۔

سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کی نئی شق شامل

آئین میں آ رٹیکل 191 اے شامل کرنے کی ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کی گئی جو دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی، آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بنچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی، سپریم کورٹ میں ایک سے زیادہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکیں گی اور سپریم جوڈیشل کونسل آئینی بینچز کے ججوں اور ان کی مدت کا تعین کرے گی۔

آئینی بینچز میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی، اس شق کے تحت کوئی حکم سپریم کورٹ کے زیراختیار اور استعمال کردہ کسی دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ منظور نہیں کیا جائے گا، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی بینچ مذکورہ دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا۔

آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججوں سے کم ججوں پر مشتمل ہوگا، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سنیئر جج آئینی بینچوںکی تشکیل دیں گے، زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بنچوں کو منتقل کیے جائیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 193 میں ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کی گئی، جس کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص ہائی کورٹ کا جج نہیں بن سکتا، آئینی ترمیم میں ہائی کورٹ جج کے لیے 40 سال عمر اور10 سال تجربے کی حد مقرر ہوگی۔

آئین کے آرٹیکل 199 اے میں ترمیم سینیٹ سے منظور کرلی گئی، جس کے تحت ہائی کورٹ دائر درخواست کے مندرجات سے باہرازخود کوئی حکم یا ہدایت کا اختیار نہیں ہوگا۔

سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 209 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا، آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا، سپریم جوڈیشل کونسل 5 اراکین پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے، سپریم کورٹ کے دو سینیئر جج اور ہائی کورٹس کے دو سنیئر ججز کونسل کا حصہ ہوں گے۔

آرٹیکل 215 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی، جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین اپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے اور اس ترمیم کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔

آرٹیکل 229 اور 230 میں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جا سکے گی، کوئی بھی معاملہ 25 فیصد ارکان کی حمایت سے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جا سکے گا۔

سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کی بھی منظوری دی گئی، اس ترمیم کے تحت کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانا ناقابل عمل ہونے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حلف لینے کے مجاز ہوں گے۔

آئینی ترامیم 2024 بل کی منظوری کے بعد سینیٹ کا اجلاس 22 اکتوبر شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

Azam Nazeer Tarar

Senate Meeting

26th Constitutional Amendment