آئینی ترمیم پر بلاول غیر پارلیمانی قوتوں کو بھی آن بورڈ لینا چاہتے ہیں، حامد میر
معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد مستقبل میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی روکنا ہے۔ آج نیوز کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ سینیر ترین جج منصور علی شاہ پاکستان کے چیف جسٹس بنیں گے۔ یہ آئینی ترمیم کسی شخصیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار نہیں کی گئی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ آئینی ترمیم جسٹس منصور علی شاہ کے خلاف نہیں۔ یہ بات انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہی کہ بعض ججوں کے حوالے سے یہ تصور یا تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔
جمعہ کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے آئینی ترمیم کا پیکیج اتفاقِ رائے سے منظور کرلیا۔ گزشتہ ماہ بنائی جانے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں۔
آئینی ترمیم کے حوالے سے کئی تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی 11 اکتوبر کو آئینی ترمیم کا مسودہ منظرِعام پر لائی تھی۔ بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی اسے منظور کرلیا۔ یہ آئینی ترمیم چیف جسٹس کے تقرر کا طریقِ کار تبدیل کرنے سے متعلق ہے۔
حامد میر کے مطابق چند ججوں نے پاکستانی سیاست میں مداخلت کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر سے متعلق پارلیمانی کمیشن مضبوط ہونا چاہیے۔ اب کے یہ کمیشن مضبوط ہوگا اور تقرر سے قبل اسکروٹنی ہوگی۔ کئی ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
حامد میر نے کہا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت نے جے یو آئی کے ڈرافٹ پر ہاں کہی کیونکہ دونوں جماعتوں نے آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ کے قیام پر اتفا کرلیا۔
جمعہ کو رات گئے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس پورے معاملے کے پیچھے ایک فرد تھا۔ انہوںنے کسی کا نام تو نہیں لیا تاہم لوگ سمجھ گئے کہ ان کا اشارہ سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی عیسٰی فائز کی طرف تھا۔ اگر پی پی پی اور ن لیگ نے مولانا فضل الرحمن کا ڈرافٹ منظور کرلیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی آئینی عدالت نہیں بنے گی اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے پاس ریٹائرمنٹ ہی کا آپشن رہ جائے گا۔
حامد میر نے بتایا کہ جے آئی آئی کا ڈرافٹ پی ٹی آئی، دیگر اپوزیشن جماعتوں، سول سوسائٹی، صحافیوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے پیش کیے جانے والے نکات کی روشنی میں تیار کیا گیا۔ پاکستان بار کونسل، ایس بی سی اے اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جے یو آئی کے مسودے پر اتفاق کرلیا ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ڈرافٹ میں تبدیلی کے حوالے سے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے غیر معمولی لچک دار رویہ اپنایا۔ بلاول بھٹو ان گروپوں کے لیے بولنا چاہتے ہیں جن کا پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انہیں بھی آن بورڈ لینا چاہتے ہیں۔ ن لیگ نے اس سے اتفاق نہیں کیا مگر خیر مسترد بھی نہیں کیا۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں جب پی ٹی آئی کو آن بورڈ لیا گیا ہے تو پھر پشتون تحفظ موومنٹ کو ساتھ لینے میں کیا ہرج ہے۔ یہ ان کی تجویز ہے جسے مسترد نہیں کیا گیا ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ نئے قانون سے عمران خان یا پی ٹی آئی کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کے ذریعے پارٹی نے اصل مسودے میں 70 فیصد تک تبدیلیاں تو متعارف کرادی ہیں۔ پی ٹی آئی ایک تیر سے دو نشانے لگا رہی ہے۔
Comments are closed on this story.