Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

63 اے کے فیصلے کے بعد حکومت کو نمبرز کی فکر نہیں، میرا یا مولانا کا انتظار کیوں کرے، بلاول بھٹو

عمران خان اگر اپریل2022 سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے، چئیرمین پی پی پی
اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2024 10:51pm

پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہماری طرف سے آئینی ترمیم کےلیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں البتہ حکومت کےلیے ڈیڈ لائن ہو سکتی ہے، حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بیٹ رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے لیے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں، امید ہے 25اکتوبر تک آئینی ترمیم پاس کرا لی جائے گی۔ ہماری طرف سے آئینی ترمیم کےلیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں البتہ حکومت کےلیے ڈیڈ لائن ہو سکتی ہے، کوشش تھی مولاناسمیت تمام سیاسی جماعتوں کوساتھ لےکرچلیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں حکومت کو کس بہانے سے کہوں کہ آپ انتظار کریں، حکومت کہے گی مولانا ساتھ ہو یا نہ ہو 63 اے کے بعد ہم نمبر پورے کرسکتے ہیں، 63 اے کے فیصلے کے بعد حکومت کو نمبرز کی فکر نہیں، حکومت کہے گی ہم ایس سی او سے پہلے ہی یہ کام نمٹا لیتے ہیں، حکومت کے پاس جب نمبر پورے ہیں تو میرا یا کسی اور کا انتظار کیوں کرے۔

آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کی کوششیں: بلاول کی وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمان سے رات گئے تک ملاقاتیں

انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے، اس کے باوجود اتفاق رائے کی کوشش کی جا رہی ہے، پیپلزپارٹی تمام سیاسی جماعتوں کوساتھ لےکرچلنا چاہتی ہے۔

جے یو آئی کے ڈرافٹ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے، بات کے بعد جو سامنے آئے گا وہ ترمیم لائیں گے، ایوان صدر میں 5 بڑے بیٹھے تھے تو سنجیدہ بات ہوئی ہوگی۔

بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ ہم چاہتے ہیں مولانا سے مشاورت ہو لیکن حکومت اب انتظار کیوں کرے؟ جب نمبر پورے ہوں تو حکومت میرا یا کسی اور کا انتظام کیوں کرے گی۔

آئینی ترامیم : میڈیا میں آنے والا ڈرافٹ اصل نہیں ہے، بلاول بھٹو

ان کا مزید کہنا تھا کہ جوعدالتوں کا چھٹی کے دن آڈر آیا اس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا، ہم عدالتی اصلاحات چاہتے ہیں،صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں، آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پر مولانا مان گئے تھے،لیکن حکومت آئین کے آرٹیکل 8اور 51 پر ترمیم لانا چاہتی تھی، جس سے پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نےاس سے انکار کر دیا۔

بلاول نے آئینی ترامیم پر پیپلز پارٹی کا ڈرافٹ وکلا کے سامنے پیش کردیا، صوبوں میں آئینی عدالت کی تجویز

بلاول بھٹو کا نے دوران گفتگو کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت اس معاملے پرغیر سنجیدگی دیکھائی، عمران خان اگر اپریل 2022سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے، بانی پی ٹی آئی آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے مجھے انکا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بلاول بھٹو نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع کوئی مسئلہ نہیں، نہ ہی توسیع کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے ایکٹ میں ترمیم کرا کے حل کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی دور میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو منظور کیا تھا، پارلیمنٹ نے ترمیم کے زریعے وزیراعظم کو آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا صوابدیدی اختیار دے دیا تھا،سپریم کورٹ نے جنرل باجودہ کو بطور آرمی چیف چھ ماہ کی توسیع دے کر معاملہ قانون سازی کے لیے پارلیمان کو بھجوا دیا تھا۔

چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کا بنچ اس وقت کے چیف جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تھاسپریم کورٹ کا آرمی چیف سے متعلق فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا۔

Bilawal Bhutto Zardari

Pakistan People's Party (PPP)