ایران ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے کتنا قریب پہنچ چکا ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا خطرہ بھی بڑھا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات اور تیل کی تنصیبات پر حملوں سے گریز کرے۔
ایران میں ایٹمی تنصیبات کتنی ہیں، اُن کی نوعیت کیا ہے اور ایران کس حد تک ایٹمی قوت کا حامل ہے یہ تمام باتیں بہت اہم ہیں اور تجزیہ کاروں کی توجہ بھی حاصل کر رہی ہیں۔
ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کی موجودگی اور اس کے جاری رہنے سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔ ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی نگراں ادارے آئی اے ای اے کے مطابق ایران نے 2003 میں اپنا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا خفیہ پروگرام روک دیا تھا۔
2015 میں ایران نے امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین سے معاہدہ کیا جس کے تحت وہ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف لے جانے والے پروگرام سے دست بردار ہوا اور اسے اقتصادی پابندیوں میں کچھ نرمی دی گئی۔
2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ایٹمی معاہدہ ختم کردیا جس کے بعد ایران بھی اس معاہدے کے تحت عائد کی جانے والی پابندیوں کا احترام کرنے کا پابند نہ رہا۔
اب ماہرین کہتے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے معاملے میں 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ 90 فیصد کی منزل تک پہنچ کر وہ 4 ایٹم بم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات نطنز، فردو، اصفہان، خنداب، تہران اور بوشہر میں واقع ہیں۔ بوشہر میں ایران کا واحد فعال ایٹمی بجلی گھر واقع ہے۔ خنداب میں بھاری پانی کا ایٹمی ریسرچ ری ایکٹر ہے۔ بھاری پانی کے ری ایکٹر خطرناک سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ پلوٹونیم تیار کرکے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف لے جانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اصفہان میں قائم ایٹمی مرکز یورینیم کو اس شکل میں تبدیل کرتا ہے جو سینٹری فیوجز میں استعمال ہوتی ہے۔ یہاں اس عمل کی بھی گنجائش ہے جس کے ذریعے کسی ایٹم بم کا مرکزی حصہ تیار کیا جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.