Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

اے پی سی میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی مخالفت، ’اسلامی ممالک کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے‘

نہتے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد
اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2024 07:55pm
Meeting between President and PM before Palestine Conference at President’s House - Aaj News

نہتے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا ہے، جس میں پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی قیادت نے بھرپور شرکت کی۔

اے پی سی میں صدرمملکت آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔

اس کے علاوہ اے پی سی میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی، سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، جے یو آئی ف کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفوری حیدری، مسلم لیگ ضیاء کےسربراہ اعجازالحق، اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان، ایم کیوایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی شریک ہوئے۔

ڈاکٹر خالد مگسی ، عبدالعلیم خان، احسن اقبال اور شیری رحمان بھی کانفرنس میں نظر آئیں۔

صدر مملکت نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں سب قائدین کو خوش آمدید کہتا ہوں، اے پی سی فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کیلئے ہورہی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہم نے وہ دن دیکھیں ہیں جب بھٹو صاحب کے دور میں یہاں پی ایل او کے دفتر ہوا کرتے تھے اور یاسر عرفات آتے جاتے رہتے تھے، میں خود یاسر عرفات سے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقات کر چکا ہوں۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث اب تک 41 ہزار فسلطینی شہید ہوچکے ہیں، فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ بری طرح تباہ ہوچکا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت سے خطے کے امن واستحکام کو شدید خطرہ ہے، پاکستان اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے، ہم فلسطینی اور لبنان کے عوام سے یکجہتی کا اظہارکرتے ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ عالمی برادری اسرائیل کی جانب سے نسل کشی روکنے میں ناکام ہوئی ہے، عالمی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرے، عالمی برادری اسرائیلی مظالم روکنے کیلئے فوری ایکشن لے، سلامتی کونسل خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنائے، عالمی برادری اسرائیل کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے اور مسئلہ فلسطین کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے، ساتھ ہی اسرائیل کومہم جوئی اور مزید جارحیت سے روکا جائے۔

فلسطین میں جاری ظلم و ستم دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے، نواز شریف

ن لیگ کے قائد نواز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری ظلم و ستم دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے، ماؤں کی گود سے بچے چھین کر شہید کیے جارہے ہیں، جو ظلم وبربریت غزہ میں جاری ہے تاریخ امیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ فلسطین کی صورتحال پر بے بس نظر آتا ہے، وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین بھرپور طریقے سے اجاگر کیا، وزیراعظم کے جنرل اسمبلی سے خطاب کو عالمی رہنماؤں نے بھی سراہا۔

نواز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ فلسطین سے متعلق اپنی قراردادوں پر علمدرآمد نہیں کراسکا، کشمیر پر بھی اقوام متحدہ کی قرارداوں پرعلمدرآمد نہیں ہوا، اقوام متحدہ امن و انصاف کیلئے قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کراسکا، اس لئے اسلامی ملکوں کو اکٹھے بیٹھ کر فلسطین کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کرنےچاہئیں۔

نواز شریف نے کہا کہ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، ایسی اقوام متحدہ کا کیا فائدہ جو ظلم و بربریت کو نہ روک سکے۔

ن لیگ کے صدر نے کہا کہ وزیراعظم نے جو روڈ میپ دیا ہے اس پر غور کرنا چاہیے، پاکستان کے عوام ہم سےفیصلہ کن اقدامات کی توقع کرتے ہیں، پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا اور رہے گا۔

ایس سی او اجلاس کے حوالے سے ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مولانا فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔

انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلہ کے حل کیلیے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے۔

سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا ، جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ کر بہترین کام کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود اسرائیل نے دھٹائی کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، آج جنگ ایران اور لبنان، یمن تک پھیل چکی ہے اور ایک چھوٹے سے جغرافیائی ملک نے پوری عرب دنیا کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، ہماری یہ کانفرنس معنی خیز ہونی چاہیے۔

سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا جاسکے، ہمیں اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کا جو واضح مسئلہ فسلطین پر 1947 سے اور اس سے قبل جو واضح مؤقف تھا اسے اپنا کر دنیا کو ایک مضبوط پیغام دینا ہوگا۔

دو ریاستی حل اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، حافظ نعیم

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیلی حملوں میں 173 صحافی بھی شہید ہوئے ہیں، غزہ میں 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں، اسرائیلی حملوں میں ڈاکٹرز بھی شہید ہوئے، اسرائیل فلسطینوں کی نسل کشی کررہا ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ ہم اس پلیٹ فارم کے ذریعے فلسطین کی آزاد ریاست کا پیغام دینا چاہتے ہیں، معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کو دنیا دیکھ رہی ہے، اسرائیل کو ہم ریاست نہیں مانتے، پاکستان میں بھی حماس کا دفتر ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا سپورٹر ہے، غزہ کی صورتحال میں اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اور اجلاس کے دوران ہی اس نے لبنان پر حملہ بھی کیا، اسرائیل غزہ میں براہ راست فاسفورس بم پھینک رہا ہے، آج اگر فسلطینی بچوں کی لاشیں ان بموں سے پگھل رہی ہیں تو کل کو ہمارے بچوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا اسرائیل کی بنیاد دہشت گردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، 2019 سے 2023 کے عرصے کے دوران امریکا نے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر فراہم کیے ہیں۔

اسرائیل فلسطین اور لبنان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، بلاول

چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آل پارٹیزکانفرنس سے خطاب کرے ہوئے کہا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے اور اس لیے کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ہیں، آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کےساتھ کھڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصل معنوں میں پاکستانی کی عوام کی طرف سے خارجہ پالیسی کی امید پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو زراداری نے کہا وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کے لیےتیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 7 اکتوبر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس حملے سے قبل امن اور سکون تھا اور ایک دن فلسطین کی عوام جاگ اٹھی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ قابض فورسز پر حملہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے تین چار نسلوں تک اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے، پوری دنیا ایک طرف اور فلسطین کے نہتے معصوم بچے، جوان بوڑھے دوسری طرف، پوری دنیا نے دیکھا کہ یرغمالیوں کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک بھی یرغمالی نہ ہو لیکن اکتوبر 7 کے بعد جو یرغمالی ہیں ان کی بھی بات کی جائے لیکن ان کے ساتھ ساتھ جو اسرائیل ریاست نے بچوں اور بوڑھوں کو تین، چار نسلوں تک ان کی جیلوں میں یرغمال رکھا اور ان پر مظالم ڈھائے تو یرغمالیوں کے ساتھ ان کی بھی بات کی جانی چاہیے۔

دو ریاستی پیغام کی تائید نہیں کرنی چاہیے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہکانفرنس میں شرکت پر تمام رہنماؤں کا مشکور ہوں، جب بھی پاکستان کو کسی چیلنج کا سامنا ہوا توپوری سیاسی قیادت متحد ہوگئی، قائدین کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو غور سے سنا، اجتماعی سوچ اور فکر ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کوبدترین اسرائیلی جارحیت کا سامنا ہے، عالم اسلام کو آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ہم سب فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، وقت آگیا ہے کہ خونریزی کو بند کرانے کے لیے اپنی تمام کاوشیں بروئے کار لائی جائیں، خونریزی کو بند کرانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، جبکہ فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اور القدس شریف اس کادارالخلافہ ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک ورکنگ گروپ بنائیں گے جو عالم اسلام کا پیغام پہنچائے گا، ورکنگ گروپ کے لیے جلد اقدامات اٹھائیں گے، اس میں ماہرین کو شامل کریں گے اور یہ ورکنگ گروپ صرف سیرسپاٹے کے لیے نہیں ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین میں امدادی سامان پہنچانے میں ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے، مزید امدادی سامان بھی غزہ کے مظلوم عوام کے لیے بھجوایاجائے گا، فلسطینی طلبہ کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے یہاں سہولیات دے رہے ہیں، جبکہ جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کا پاکستانی وفد نے بائیکاٹ کیا۔

اے پی سی کا اعلامیہ جاری

بعد ازاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کثیرالجماعتی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل خطے میں امن اور سیکیورٹی کو تباہ کررہا ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ حال میں ہی اسرائیل کی طرف سے لبنان میں کی جانے والی جارحیت، غزہ میں حملوں، حماس کے رہنماؤں کی تہران اور لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت خطے میں امن کی صورتحال کو خراب کررہی ہے۔

کانفرنس کے اعلامیے میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا اور مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔

فلسطین کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی مذمت کے عنوان سے کثیر الجماعتی کانفرنس میں پیش کی گئ قرارداد میں اسرائیلی کی نشل کشی کے اقدامات جس میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید کیے گئے اس کی پر زور مذمت کی گئی ہے۔

اسرائیلی مظالم کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد میں اسکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کے کیمپوں اور عبادت گاہوں پر حملوں کی بھی مذمت کی گئی۔

APC

All Parties Conference

solidarity with palestine