غزہ پر حملے کا ایک سال، نئے ظالم کا ظہور
چنگیز خان مظلوم نہیں تھا، ہلاکو خان یا فرعون بھی مظلوم نہیں تھے، بدترین انسان اور ظالم و بے رحم تھے، انسانی تاریخ میں ان انسان نما وحشی درندوں کو کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا، اسی طرح ہٹلر بھی ایک ایسا ہی ظالم تھا جس نے دعویٰ تو مظلوم جرمن عوام کی آواز بننے کا کیا لیکن ناصرف اپنی قوم بلکہ یہودیوں سمیت دنیا بھر کے لیے ظالم ثابت ہوا، دوسری جنگ عظیم کے دوران برتر جرمن قوم کے نام پر ہٹلر نے یہودیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، جرمنی اور اس کے اتحادی یورپی ملکوں میں ساٹھ لاکھ کے قریب یہودیوں کو تہ تیغ کیا گیا، لاکھوں عورتوں کو آبروریزی کے کرب کا سامنا کرنا پڑا، ان گنت بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرگئے، یہ تک ہوا کہ گڑھے کھود کر زندہ یہودیوں کو ان میں ڈالا گیا اور پھر ان گڑھوں کو پاٹ دیا گیا، یہودیوں کو مارنے کے لیے زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا۔
امریکن ایئر بک کے مطابق 1933میں دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ 53لاکھ کے قریب تھی، ان میں سے 95لاکھ یہودی یورپ میں آباد تھے، دوسری جنگ عظیم چھہ سال جاری رہی، اس دوران ہٹلر اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں یورپ میں یہودیوں کی کل آبادی کے 63فیصد کو مار دیا گیا، یعنی ہر سال 10لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا جو یورپ میں یہود کی کل آبادی کا 10اعشاریہ 53فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح اگر موجودہ اسرائیل کا جائزہ لیں تو اس کی کل آبادی 94لاکھ 20ہزار 52ہے، اور گزشتہ سال حماس کے حملے میں ایک ہزار 139یہودی مارے گئے جو اسرائیل کی کل آبادی کا صفر اعشاریہ صفر ایک دو(0.012)فیصد بنتا ہے۔ دوسری طرف 2023میں غزہ کی کل آبادی 23لاکھ تھی اور ایک سال سے جاری لڑائی میں 42ہزار فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں، 10ہزار افراد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کا زندہ رہنا ناممکنات میں سے ہے، یعنی اسرائیل نے ایک سال میں 52ہزار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے، ان میں 16ہزار 500بچے اور 6ہزار خواتین شامل ہیں، یہ اموات غزہ کی کل آبادی کا 2اعشاریہ 26فیصد ہے، یعنی اسرائیلی اموات نہ ہونے کے برابر ہیں، اور اگر دوسری جنگ عظیم کی طرح یہ لڑائی 6سال جاری رہتی ہے تو اسرائیل کے ہاتھوں مرنے والے فلسطینیوں کی کل تعداد 3لاکھ 12ہزار کے قریب ہوگی جو غزہ کی کل آبادی کا 13اعشاریہ 56فیصد بنتا ہے۔ کیا اسرائیل بھی ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہا ہے؟
اب ذرا اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ہونے والی دیگر تباہی کا جائزہ لیتے ہیں، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فلسطینی حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی تقریباً تمام ہی آبادی بے گھر ہوچکی ہے، آدھے سے زیادہ گھر تباہ ہوگئے یا رہنے کے قابل نہیں رہے، 80فیصد تجارتی و کاروباری جگہیں، 85فیصد اسکول، 65فیصد سڑکیں اور 65فیصد زرعی زمین تباہ ہوچکی ہے، غزہ کے 36اسپتال کھنڈر بنادیے گئے ہیں، صرف 17اسپتال ایسے ہیں جن میں علاج معالجے کی جزوی سہولتیں دستیاب ہیں، ڈبلیو ایچ او کے مطابق اسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولت فراہم کرنے والی دیگر جگہوں پر اسرائیل نے 516حملے کیے، ان حملوں میں ایک ہزار کے قریب طبی عملہ ہلاک ہوا ہے، پورے غزہ کے مریضوں اور اسرائیلی حملوں میں زخمی افراد کے لیے اسپتالوں کے بچے کچھے ڈھانچے میں صرف 1500بیڈز دستیاب ہیں، اس میں فیلڈ اسپتالوں میں موجود 650بیڈز بھی شامل ہیں۔ 20ہزار 241بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ان میں شدید قلت والے بچوں کی تعداد 4ہزار 437ہے، غذا نہ ملنے کی وجہ سے مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔
اسرائیل نے اپنے ہی زیر قبضہ مغربی کنارے کو بھی جنگ کی آگ میں گھسیٹ لیا ہے، فلسطین کے اس حصے پر اسرائیل 1967سے قابض ہے، تازہ ترین حملہ طولکرم مہاجرین کیمپ کے ایک کیفے پر کیا گیا، حملے میں 18افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے، گزشتہ 24برس میں مغربی کنارے میں ہونے والی اس کارروائی کو بدترین حملہ قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس کا اصل نشانہ حماس کا مقامی کمانڈر تھا، مغربی کنارے میں بھی ساڑھے 7سو کے قریب افراد کو شہید کیا جاچکا ہے، ان میں 160بچے ہیں، زخمیوں کی تعداد بھی 6ہزار ہے۔ غزہ پر ہونے والے ہر حملے کے بعد بھی اسرائیل نے یہی کہا کہ حملے میں حماس کے رہنما یا کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا اور عام شہریوں کی ہلاکت کو کولیٹرل ڈیمیج یعنی بدقسمتی سے حملوں کی زد میں آنے والا کہا گیاہے۔ حالاں کہ ایک نہیں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر رہائشی عمارتوں، نہتے فلسطینیوں کے قافلوں کو نشانہ بنایا اور اسپتالوں پر بمباری کی۔
غزہ کو تخت و تاراج کرنے کے بعد اسرائیل نے اب لبنان کا رخ کرلیا ہے، حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو سینئر قیادت سمیت شہید کردیا، گزشتہ رات لبنان کے دارالحکومت بیروت پر بدترین حملہ کیا، حزب اللہ کے کمیونی کیشن نیٹ ورک کے سربراہ کو مارنے کا دعویٰ کیا، اسرائیل کے تازہ حملوں میں 2ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں۔ شام پر بھی اسرائیل حملہ کرچکا ہے۔ امریکا اور برطانیہ بھی اسرائیلی مدد کو سامنے آچکے ہیں، انھوں نے یمن پر محدود حملہ کیا، لڑاکا طیاروں اور جنگی جہازوں نے دارالحکومت صنعا سمیت کئی علاقوں پر بم برسادیے۔ کیا ان تمام حملوں کا پس منظر مبینہ دہشت گردوں کی سرکوبی ہے یا پھر مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی؟ یا پھر کچھ اور؟
غزہ سمیت کئی ملکوں پر اسرائیلی حملوں نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو، ایک بات تو ثابت کردی کہ جیسے چنگیز خان، ہلاکو اور ہٹلر کا نام نفرت سے لیا، اب میں اسرائیل کا نام بھی شامل ہوگیا ہے، وہ یہودی جو کبھی مظلوم بن کر پوری دنیا سے ہمدردی سمیٹتے تھے، آج نفرت جمع کر رہے ہیں، دوسری طرف غزہ کے لوگ مظلومیت اور صبر و برداشت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ غزہ کے بے کس عوام نے مظلومیت کا نقاب اوڑھنے والے ظالم کا اصل چہرہ مسلم امہ اور دنیا کے سامنے آشکار کردیا۔ اب ظالم کا ہاتھ روکنا ہے یا مظلوم کا ساتھ دینا ہے، گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی۔
موت تو ہر ذی روح کو آنی ہے، چاہے بادشاہ ہو یا غلام۔ اصل فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کون سی موت کا انتخاب کرتے ہو، بادشاہ ہوکر بھی غلامی کی موت یا پھر وہ حسینی شہادت جس میں جان تو جاتی ہے لیکن جو ظالم اور مظلوم کا فرق قیامت تک کے لیے واضح کرگئی۔
Comments are closed on this story.