مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی الیکشن میں منظم دھندلی کی تیاری عروج پر
مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد جاری ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی الیکشن میں منظم دھندلی کی تیاری عروج پر ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور سیاسی امور کے ماہرین کے مطابق مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہئے اور اس کا واحد قابل قبول حل اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے ہے۔
سیاسی امور کے ماہرین کے مطابق لیفٹیننٹ گورنر کو پولیس، پبلک آرڈر، آل انڈیا ایس وی سی اور ٹرانسفر اور پوسٹنگ سے متعلق مزید اختیارات دیے گئے، لیفٹیننٹ گورنر کو 5 نشستیں الاٹ کی گئی ہیں۔ 3 مہاجروں کے لیے اور 2 پنڈتوں کے لیے، اس سے ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے لیے جوڑ توڑ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق جبکہ چیف منسٹر کے اختیارات میں کمی کردی گئی، مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار اسرائیلی ماڈل کی پیروی کر رہا ہے جس میں مجموعی HRVs اور مسلم اکثریت علاقوں کو مسلم اقلیت میں تبدیل کررہی ہیں۔
مودی ’نیا کشمیر‘ چاہتے ہیں جو لوگوں کو قبول نہیں
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مرکزی حریت قیادت یا تو نظربند ہے یا پھر این اے، ایس آئی اے، ای ڈی اور عدالتوں کے ذریعے مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ الیکشن میں بی جے پی کے حمایت یافتہ افراد کی فتح کو یقینی بنایا جائے گا۔
دوسری جانب یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائےجانے کےبعد اب این آئی اے کے ذریعہ گرفتار دیگر افراد پر مقدمہ چل رہا ہے جن میں آسیہ اندرابی بھی شامل ہیں جبکہ 5 اگست 2019 سے نئی پارٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مرکزی دھارے کی جماعتوں اور مسلم اکثریت کو کمزور کیا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی حکومت نے ووٹروں اور اپوزیشن کے امیدواروں کو ڈرانے کے لیے خطے میں اپنی 10 لاکھ فورس تعینات کیے ہیں۔تقریر اور اسمبلی کی آزادی کو محدود کیا اور انتخابی عمل کو اپنے پراکسیوں کے حق میں جھکا دیا۔
مودی سرکار کا مقبوضہ کشمیر میں امن قائم کرنے کا فریب اپنی ہی افواج کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہونے لگا
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں کے لیے ڈومیسائل کے اجراء (کے ذریعے) وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کررہی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ریاستی اسمبلی کی نشستوں میں غیر متناسب اضافہ کیا گیا، ہندو اکثریت ،ظاہر کرنے کے لیے 22 حلقوں کو جیری مینڈرنگ کے ذریعے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔ حد بندی کےتحت کلیدی نتائج میں جموں کو 6 اضافی نشستیں اور کشمیر کو 1 مختص کردیاگیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے گھٹن ماحول میں انتخابات، جمہوری عمل کی صداقت پر شکوک پیدا کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 10 لاکھ فوج کی موجودگی، انتخابی عمل سے زیادہ فوجی مشق کا تاثر دے رہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں پر امن حالات کا تاثر دینے کی کوشش کی نفی ہوتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی چالبازی اور الیکشن
مقبوضہ کشمیر میں آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، ہندوستانی حکومت 13 سال گزرنے کے بعد بھی تازہ مردم شماری نہیں کر سکی۔ مقبوضہ وادی میں الیکشن لڑنے والے 908 امیدواروں میں سے %40 سے زیادہ (360) آزاد ہیں۔
ان آزاد امیدوار کو بی جے پی اور ایس ایف نے مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کے غرض سے اپنے قریب رکھا ہوا ہے۔ اے پی ایچ سی پر پابندی ہے اور تقریباً 48 رہنما غیر قانونی حراست میں ہیں۔ ان میں سے بہت سے رہنماؤں کو پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ (UAPA) جیسے سخت قوانین کے تحت قید کیا گیا ہے۔ یہ قوانین دراصل بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
Comments are closed on this story.