وہ بھی کیا زمانہ تھا ۔۔۔۔ جب ایران و اسرائیل نے مل کر میزائل بنائے تھے
آج ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے کٹر دشمن اور خون کے پیاسے ہیں مگر ایک دور وہ بھی تھا جب دونوں نے مل کر میزائل بنائے تھے۔ یہ بات ہے 1970 کی دہائی کی جب ایران پر رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی یعنی ملک میں بادشاہت تھی۔ تب اسرائیل سے تعلقات بہت اچھے تھے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ مختلف شعبوں میں اشتراکِ عمل کی راہ پر گامزن تھے۔
رضا شاہ پہلوی ایران کو دفاعی اعتبار سے انتہائی مضبوط بناکر کم از کم علاقائی سطح پر ایک بڑی قوت بنانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے اسلحے کے حصول کے ساتھ ساتھ اسلحہ تیار کرنے میں مہارت بھی لازم تھی۔ اس کے لیے لازم قرار پایا کہ کسی سے اشتراکِ عمل کے ذریعے اپنے معاملات کو درست کیا جائے۔
اسرائیل سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ایرانی تیل کے عوض ہتھیار حاصل بھی ہونے تھے اور تیار بھی کیے جانے تھے۔ یہ معاہدہ اپریل 1977 میں طے پایا۔ معاہدے کو پراجیکٹ فلاور کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کی مالیت ایک ارب بیس کروڑ ڈالر تھی۔ مجموعی طور پر تیل کے عوض ہتھیار کے اصول کے تحت 6 معاہدے ہوئے تھے۔
اسرائیل اور ایران کو مل کر 300 کلو میٹر تک مار کرنے والے جدید ترین میزائل تیار کرنے تھے۔ ہر میزائل میں 750 کلو گرام تک بارود اور دیگر بم وغیرہ لے جانے کی صلاحیت تھی۔ ابتدا میں طے پایا تھا کہ ان میزائلوں کو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت سے بھی متصف کیا جائے گا مگر پھر اسرائیل نے تحفظات کے پیشِ نظر یہ معاملہ ختم کردیا۔
ایران اور اسرائیل کے ماہرین نے مل کر چند میزائل تیار بھی کیے اور اُن کی آزمائش بھی کی۔ پھر یوں ہوا کہ ایران میں سب کچھ بدل گیا۔ آیت اللہ خمینی نے فرانس میں جلا وطنی ختم کرکے وطن کی راہ لی جہاں انقلاب کی قیادت کی۔ بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور ایران میں جہاں اور بہت کچھ ختم ہوا وہیں اسرائیل کے ساتھ مل کر میزائل تیار کرنے کا پروگرام بھی ٹھکانے لگا۔
Comments are closed on this story.