بھارتی پروپیگنڈے سے بنگلا دیشی مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے
بنگلا دیش میں چند مسلم تنظیموں نے بھارت کی طرف سے بنگلا دیشی ہندوؤں پر مظالم کی من گھڑت کہانیوں پر مبنی پروپیگنڈے سے مشتعل ہوکر اعلان کیا ہے کہ دُرگا پوجا کے موقع پر تعطیلات کا اعلان نہیں کیا جانا چاہیے اور کسی کو مورتیاں سمندر برد کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔
بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں چند مسلم تنظیموں کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ بنگلا دیشی ہندوؤں پر مظالم کا بے بنیادی بھارتی پروپیگنڈا بند کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو اگر دُرگا پوجا کرنا چاہتے ہیں تو چار دیواری میں رہتے ہوئے کریں۔ کسی کو سرکاری پلے گراؤنڈ میں پوجا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بنگلا دیش کی مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے انتہائی امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اُن کے بنیادی حقوق غصب کیے جارہے ہیں، مسجدیں توڑی جارہی ہیں، اُنہیں مندر میں تبدیل کیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود بھارتی قیادت اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ بنگلا دیش میں ہندو محفوظ نہیں اور اُن سے انتہائی اہانت آمیز سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو عوامی لیگ کا اقتدار ختم ہونے اور وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہوکر بھارت چلے جانے کے بعد ملک بھر میں عوامی لیگ کے عہدِ اقتدار میں خوب کرنے والوں کے خلاف شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔
بہت سے مقامات پر عوامی لیگ کے عہدیداروں اور کارکنوں کو گھیر کر مارا گیا۔ ان میں ہندو بھی شامل تھے۔ عوامی سطح پر احتجاج سیاسی نوعیت کا تھا، مذہبی نوعیت کا نہیں۔ کسی ہندو کو اگر مارا پیٹا گیا تو اس بنیاد پر کہ اُس نے عوامی لیگ کے دور میں یا تو بدمعاشی کی تھی یا پھر قومی خزانے کو لُوٹا تھا۔
بنگلا دیش میں عوامی لیگ کے اقتدار میں ہندوؤں کو زیادہ کُھل کر پنپنے کا موقع ملا۔ شیخ حسینہ واجد کی پالیسیاں بھارت نواز بھی تھی اور ہندو نواز بھی۔ اُن کے پندرہ سالہ اقتدار کے دوران مختلف شعبوں میں ہندوؤں کو خوب اندر تک گھسنے اور من مانی کرنے کے بھرپور مواقع ملے۔
جب طلبہ تحریک کامیاب ہوئی اور شیخ حسینہ واجد کے بھارت فرار ہونے کے بعد معاملات مشتعل عوام کے ہاتھ میں آگئے تب عوامی لیگ کے عہدیداروں اور کارکنوں کے خلاف بھڑکے ہوئے جذبات کی زد میں ہندو بھی آئے۔
جن ہندوؤں نے شیخ حسینہ کے دورِ اقتدار میں خوب من مانی کی تھی اور لوگوں سے امتیازی سلوک روا رکھا تھا ان کے خلاف بھی جذبات بھڑکے اور اُنہیں بھی مارا پیٹا گیا۔
بھارتی قیادت اور میڈیا نے اس صورتِ حال کو اپنے مفاد میں خوب استعمال کیا ہے۔ بنگلا دیشی ہندوؤں کے خلاف کسی بھی واقعے کو بھارتی میڈیا میں خوب اُچھالا جاتا رہا ہے تاکہ بھارت کے عام ہندوؤں کے ذہن میں یہ بات ٹھونس دی جائے کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ہے اس لیے بھارت میں بھی مسلمانوں کا جینا حرام کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں :
بنگلا دیش نے بھارت کو دُرگا پوجا میں درکار مچھلی کی سپلائی روک دی
بنگلہ دیش میں نماز، اذان کے دوران پوجا میں موسیقی اور ساؤنڈ سسٹم بند رکھنے کا حکم
Comments are closed on this story.