ایران کے لیے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں، بھارتی تجزیہ کار
لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں اور اُن میں 600 سے زائد افراد کی شہادت کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ایران کیا کرے گا۔ ایران کے لیے اس صورتِ حال میں الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں۔ حزب اللہ اُس کی مدد سے کام کرتی آئی ہے۔ اس نازک وقت میں حزب اللہ کو تنہا چھوڑ دینا ایرانی قیادت کے لیے آسان ہوگا نہ موزوں۔
انڈیا ٹوڈے سے گفتگو کرتے ہوئے اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار کرنل (ر) راجیو اگروال نے کہا کہ ایران کے لیے مکمل طور پر الگ تھلگ رہنا آسان نہ ہوگا۔ جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ امریکا کی ایما پر قطر اور مصر کی وساطت سے ہونے والے جنگ بندی مذاکرات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور اسرائیلی فوج نے غزہ کو تاراج کرنے کے بعد لبنان میں تباہی مچادی ہے۔
اسرائیلی فوج نے جدید ترین طریقوں سے تباہی کا دائرہ وسیع کرنے پر توجہ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی بڑھی ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی۔ حزب اللہ کی حملہ کرنے کی طاقت کو ٹھکانے لگانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ صہیونی فوج نے گزشتہ روز حزب اللہ کے میزائل اینڈ راکٹ فورس کے سربراہ ابراہیم محمد قبیصی کو بھی شہید کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔
2006 میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی اُس میں لبنان کے 1100 جبکہ اسرائیل کے 120 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ لبنانی فوج نے تب بہت حد تک ڈٹے رہنے کا ثبوت دیا تھا۔ 14 اگست 2006 کو جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔
وہ جنگ بھی حزب اللہ کی شروع کی ہوئی تھی جس میں لبنانی فوج کو شریک ہونا پڑا تھا۔ اب بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر حملے تیز کیے تو جواب میں اسرائیلی فوج نے اُسے نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں لبنانی سرزمین پر بھرپور جنگ کا سماں پیدا ہوچکا ہے۔
کرنل (ر) راجیو اگروال کا کہنا ہے کہ اس بار اسرائیل نے بظاہر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ حزب اللہ کو ختم ہی کردیا جائے۔ اُس کا اسلحہ خانہ نشانے پر ہے۔ سیکڑوں راکٹ لانچر اور ہزاروں راکٹ اور میزائل تباہ کیے جاچکے ہیں۔ حزب اللہ نے کم و بیش 18 برس میں جو عسکری قوت جمع کی تھی وہ ختم کی جارہی ہے۔ ٹاپ کی قیادت بہت حد تک ختم ہوچکی ہے اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بلندی پر تنہا کھڑے ہیں۔
جولائی میں حماس چیف اسماعیل ہنیہ کو شہید کیے جانے کے موقع پر ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اسرائیل سے بھرپور بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا مگر اب تک ایسا کچھ ہوا نہیں۔ ایران بالعموم اپنی پراکسیز کے ذریعے ہی کام کرتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
پاس دارانِ انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی، ایٹمی ہتھیاروں کے ایرانی پروگرام کے کلیدی سائنس دان محسن فخری زادے اور قدس فورسز کے جنرل رضی موسوی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بھی ایران نے بالواسطہ طریقہ ہی اختیار کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ایران کون سا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ یمن کی حوثی ملیشیا اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کے خلاف بڑے پیمانے کی کارروائیوں نے ایران کے لیے بہت نازک صورتِ حال پیدا کردی ہے۔
Comments are closed on this story.