Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

چیف جسٹس کو گالیاں دینا آسان کام ہے، کرائے کے صحافی گالیاں دینا شروع ہو جائیں گے، جسٹس عیسیٰ

ڈاکٹر ثمینہ کے ساتھ صحافی بھی کمرہ عدالت سے باہر آنے پر چیف جسٹس برہم
شائع 20 ستمبر 2024 05:59pm

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ثمینہ ملک کی کمرہ عدالت سے روانگی کیساتھ صحافی بھی کمرہ عدالت سے باہر آنے پر چیف جسٹس برہم ، تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے، چیف جسٹس نے کہا گالم کلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے۔

سپریم کورٹ/ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے معاملے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل اسلامی یونیورسٹی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ،اسلامی یونیورسٹی کے وکیل ریحان الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ نےالزام لگایاکہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے، ڈاکٹرثمینہ کودیکھ لیں،سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟

اسلامی یونیورسٹی کے وکیل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر اعتراض کر دیا، وکیل نے کہا کہ آپ نے بطور بورڈ رکن اجلاس میں سارے سوالات پوچھے تھے، آپ بورڈ کے رکن بھی ہیں اس لئے مناسب ہوگا یہ کیس نہ سنیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق چیف جسٹس یا اس کا نمائندہ کئی جامعات کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے، جب معلومات نہ دینی ہوں تو اعتراض کر دیا جاتا ہےمیرے کسی اہلخانہ کی ڈگری کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اعتراض بجا ہوتا، آپ نے کرائے کے جو لوگ رکھے ہیں پراپیگنڈہ کیلئے آج اس کو بھی دیکھیں گے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا اسلامک یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ

سماعت میں وقفہ کیا گیا بعدازاں چیف جسٹس کے حکم پر ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئیں۔

سماعت میں وقفہ کے بعد چیف جسٹس اور وکیل ریکٹر اسلامک یونیورسٹی ریحان الدین گولڑہ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ وکیل اسلامی یونیورسٹی ریحان الدین نے کہا کہ آپ نے الزام لگایا تھا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے، ڈاکٹر ثمینہ کی حالت دیکھ لیں میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟

انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی نے سپریم کورٹ کو ڈیٹا فراہم کردیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف ہوں گے تو شک تو ہوگا، ایچ ای سی کہتا ہے ثمینہ ملک کو جب بھی میٹنگ کا کہیں بیماری کا بہانہ بنا لیتی ہیں۔ وکیل نے کہا کہ صرف ایک میٹنگ میں شرکت نہیں کی دیگر میں آن لائن شرکت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ایچ ای سی کا دفتر کسی دوسرے شہر میں ہے جو آن لائن شرکت کرتی تھیں؟ یونیورسٹی میں کتنی اسامیاں خالی ہیں اس کا جواب دیں۔

وکیل ریحان گولڑہ نے کہا کہ آپ نے یونیورسٹی بورڈ اجلاس میں بطور رکن بھی یہ سوال پوچھا تھا، وہاں بھی جواب دیا تھا آج عدالت میں بھی وہی جواب دے دیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خاموش ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بدتمیزی کریں۔ وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹایا جائے۔ چیف جسٹس نے پولیس کو ہدایت دی جس پر پولیس اہل کاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹا دیا۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ ڈاکٹر ثمینہ میڈیا کے قریب کیا کر رہی ہیں انہیں یہاں بلائیں؟ پھر ان سے پوچھا کہ آپ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں؟

ثمینہ ملک نے کہا کہ میں دوائی کے زیر اثر ہوں کچھ وقت دیں سوالات کے جواب دے دوں گی۔

اس پر چیف جسٹس برہم ہوئے اور کہا کہ آپ کو ڈرامہ کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔ چیف جسٹس نے ثمینہ ملک کو کمرہ عدالت سے جانے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے، گالم گلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے، سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے، میں نے صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا تھا وہ بھی خود سے نہیں لیا کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟ لوگوں کو میڈیا پر ہائیر کرکے گالم گلوچ شروع کر دی جائے گی، باہر کے ممالک بھی اسلامک یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں، اسلامک یونیورسٹی کی ریکٹر کو برقرار رکھنا ہے یا نہیں وفاقی حکومت فیصلہ کرے۔

Chief Justice Qazi Faez Isa