پاکستان میں پہلی بار پیکا عدالت سے مسیحی خاتون کو توہین رسالت کیس میں سزائے موت
اسلام آباد کی پیکا ایکٹ خصوصی عدالت نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت کیس میں جرم ثابت ہونے پر ایک مسیحی خاتون کو سزائے موت سنا دی۔
پیکا ایکٹ خصوصی عدالت کے جج افضل مجوکا نے سزائے موت فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کراچی سے تعلق رکھنے والے ملزم محمد ہاشم کو بھی الزام ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی۔
خاتون پر الزام تھا کہ انہوں نے چار برس قبل واٹس ایپ پر ایک گروپ میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد شیئر کیا تھا۔
مسیحی خاتون کو تعزیرات پاکستان 295 سی کے تحت سزائے موت اور 3 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جبکہ پیکا کی سیکشن 11 کے تحت سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔
عدالتی فیصلے میں حکم دیا گیا کہ خاتون کو تامرگ پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے، مجرم خاتون 30 روز کے اندر سزا کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔
جج افضل مجوکا نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ اس سزا پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ اس فیصلے کی توثیق نہیں کردیتی۔
عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو مجرمان کو جیل میں رکھنے کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔
مذکورہ مجرمہ دوسری مسیحی خاتون ہے جسے پیغمبرِ اسلام اور دینِ اسلام کی توہین کے کسی معاملے میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
اس سے پہلے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن اکتوبر سنہ 2018 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ایک بینچ نے مقامی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آسیہ بی بی کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے ان پر عائد الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آسیہ بی بی اپنے اہل خانہ سمیت بیرون ملک چلی گئی تھی۔
Comments are closed on this story.