26 اکتوبر کو سینیئر ترین جج چیف جسٹس بنیں گے، ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع پیکج کا حصہ نہیں، وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے آج بھی جو پیکج گردش کر رہا ہے وہ عارضی ہے، ڈرافٹ اس وقت تک فائنل نہیں ہوتا جب تک کابینہ کی منظوری نہ مل جائے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مشکور ہوں کہ انہوں نے موقع دیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فروری کے آخر میں پیپلز پارٹی سے قانون سازی سے متعلق مذاکرات کیے گئے، میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ تھا، پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتی ریفارمز کا مطالبہ سامنے آیا، عدالتی ریفارمز ہمارے منشور کا بھی حصہ تھے، پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے نامکمل ایجنڈے پر کام کرنے کا کہا۔
وزیر قانون نے کہا کہ قانون سازی کے مختلف مرحلے ہوتے ہیں، وکلاء بہتر جانتے ہیں، آج بھی جو پیکج گردش کر رہا ہے وہ عارضی ہے، ڈرافٹ عارضی ہوتا ہے، ڈرافٹ اس وقت تک فائنل نہیں ہوتا جب تک کابینہ کی منظوری نہ مل جائے، پھر بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے، پھر معاملہ کمیٹی میں بھی جا سکتا ہے، یہ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے، اس نے دو تہائی سے منظور ہونا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تگرامیم میں چارٹر آف ڈیموکریسی، بار کونسلز کی تجاویز اور سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو سامنے رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں عسکری قیادت سے کہا کہ آپ دہشتگردی کے خاتمے میں ناکام ہوچکے ہیں، عسکری قیادت نے کہا کیا ملک کیلئے جانیں دینے والوں کے گھر بار نہیں ہوتے؟ عسکری قیادت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا بھی حوالہ دیا، عسکری قیادت نے کہا راہ حق کے شہیدوں کے ترانے سے ہمارے زخم خشک نہیں ہو سکتے، ایپکس کمیٹی میں عسکری قیادت کی کافی سخت گفتگو تھی۔
وزیر قانون نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی 2006 میں آیا جس میں آئینی عدالت کے قیام کا کہا گیا، آئینی عدالت ایک الگ سے عدالت ہے جو آئینی آرٹیکلز کے تحت اختیارات استعمال کرے، ہمارے ذہین میں خاکہ یہ ہے کہ آئینی عدالت کے 7 یا 8 ججز ہوں، آئینی عدالت میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا آئینی عدالت کی گنجائش ہمارے آئینی فریم ورک میں ہے یا نہیں، تمام بار کونسلز اپنے لیگل ایکسپرٹ کی کمیٹی بنا کر ہماری رہنمائی فرمائیں، میں آپ کا ہی حصہ ہوں، ہمیں تجاویز دیں کہ آئینی عدالت کا کس طرح کا ماڈل رکھا جائے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ عدالتی ترامیم میں صرف چار چیزیں ہیں، باقی جو 40 چیزیں ہیں وہ آئینی عدالت کا نام جگہ جگہ شامل کرنے سے متعلق ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 9 اے میں ترمیم ہے جو صاف و شفاف ماحول سے متعلق ہے، یہ ترمیم ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور ماحول کو بہتر بنانے کیلئے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن سے متعلق ترامیم میں کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کیلئے مستقل سیکرٹریٹ بنانے کی تجویز بھی ہے۔
وزیر قانون نے استفسار کیا کہ بتا دیں اعلیٰ عہدے پر بیٹھے جج کام نہ کریں تو ہم اس کو گھر نہ بھیجیں؟ صوبوں میں ہر ہائیکورٹ کے ججز کی پرفارمنس کا جائزہ لیا جائے گا، کیا یہ عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے ہے؟ کمیٹی ہمیں بتائے اگر ہے، ججز کی عمر ہم نے 68 سال لکھی ہے، یہ تو نہ ہو کہ جس کو تعینات کریں وہ چار ماہ میں ریٹائر ہو جائے۔
وزیر قانون نے کہا کہ تجویز دی ہے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر کرے۔جب جوڈیشل کمیشن کا نمبر پورا ہو جائے گا، تب تقرریاں جوڈیشل کمیشن کرے گا، جوڈیشل کمیشن کا سربراہ آئینی عدالت کا چیف جسٹس ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی ترامیم میں ججز کے تبادلے سے متعلق بھی ترمیم ہے، آج سے قبل صدر مملکت چیف جسٹس کی سفارش پر تبادلے کرتے تھے، ترمیم کے بعد تبادلے جوڈیشل کمیشن کیا کرے گا، جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیئرمین نہیں بلا رہا تو کمیشن کے ون تھرڈ ممبران بلا سکیں گے، جوڈیشل کمیشن کے ممبران بھی ججز تعیناتی کیلئے امیدوار تجویز کر سکیں گے۔
وفاقی وزیر قانون نے قاضی فائر عیسیٰ کو نوازے جانے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی ایک شخص کو نظر میں رکھ کر قانون سازی کو نہ دیکھیں، ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ موجودہ چیف جسٹس ہی آئینی عدالت کے چیف جسٹس ہوں گے، یوں مسئلہ بھی حل ہوتا تھا، لیکن ہم نے یہ بات ہی نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بار بار بات ہو رہی ہے، عمر میں توسیع پیکج کا حصہ ہی نہیں ہے، موجودہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر وہی ہے جو پہلے سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سینئر اپوزیشن رہنما نے کہا تھا آپ کسی بار کونسل میں جانے کے قابل نہیں رہے، میں اسی لیے آج آپ کے پاس آیا ہوں، یہ فتویٰ دینے والے دیکھ لیں چاروں صوبوں کے بار ایسوسی ایشن بیٹھے ہیں، میں روزانہ بار کونسلز کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوں۔
دیکھنا ہے کہ آئینی عدالت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے یا نہیں، فاروق ایچ نائیک
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے وزیر قانون کے خطاب کے جواب میں کہا کہ کاش آپ نے آئینی پیکج کی تیاری سے پہلے ہم سے تجاویز مانگ لی ہوتیں، آج یہ ضرورت نہ پڑتی۔
فاروق حامد نائیک نے بھی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے ناکہ مردہ، زندہ دستاویز کا مطلب یہ کہ اس میں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قرارداد مقاصد میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کا کہا گیا ہے، دیگر ممالک میں بھی آئینی عدالتیں موجود ہیں، آئینی عدالت کا قیام وقت کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ میں ضابطہ فوجداری و دیوانی مقدمات زیر التوا ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ آئینی عدالت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے یا نہیں، اگرعدلیہ کی آزادی کے برخلاف نہیں تو آئینی عدالت کا ضرور قیام ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام مغربی جمہوریتوں میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، مصر اور انڈونیشیا میں بھی آئینی عدالتیں ہیں، 1973ء میں آئینی ترمیم ہوئی، 73 کا آئین حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے بنا، 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین بنا، 1962 میں دوسرا آئین بنا، موجودہ پیکج جو آرہا ہے اس کا کسی کو کچھ نہیں معلوم، ترمیم کابینہ سے منظوری کے بغیر پارلیمنٹ میں نہیں آسکتی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر قانون سے درخواست ہے مسودے کو حتمی شکل دیں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سے شیئر کریں، ہم چاہتے ہیں کہ ایک اچھی سوچ ضائع نہ ہو جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی آئینی عدالت کا قیام اٹھارویں ترمیم کا حصہ کیوں نہ بنی، چاہوں گا کہ ہم ایک کمیٹی بنائیں اور حکومت ہم سے ڈرافٹ شیئر کرے اور ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آئینی عدالت کے قیام کو پایا تکمیل تک پہنچائیں، کمیٹی ایک ایسا مسودہ تیار کرے جو قوم، جمہوریت اور ملک کی بقا کیلئے ہو۔
25 اکتوبر تک قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان ہیں، اعظم نذیر تارڑ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام آل پاکستان لائرز کنونشن کے اختتام پر وزیر قانون نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ جو بھی ڈرافٹ بنے گا اس میں ہم پارلیمان کے اندر بھی اتفاق رائے کی کوشش کریں گے، مجوزہ ڈرافٹ میں کچھ چیزیں مزید بہتر ہونے والی ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ ججز کے تقرر اور احتساب کا نظام شفاف ہونا چاہیے، اعلیٰ عدلیہ کو لوگوں کی امنگوں کے مطابق ڈیلیور کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ واضح کر چکا ہوں 25 اکتوبر تک قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان ہیں، 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج چیف جسٹس بن جائیں گے۔
Comments are closed on this story.