پی پی ایم اے کی پاکستانی ادویات کی افادیت کے خلاف الزامات کی شدید مذمت
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے ان حالیہ میڈیا رپورٹس کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان میں تیار ہونے والی ادویات اکثر ’بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتیں‘۔
مذکورہ ریمارکس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوآرڈینیشن کے اجلاس کے دوران دیے گئے تھے، جو کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی گزشتہ پانچ سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہی تھی۔
جس پر پی پی ایم اے نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا، ’پی پی ایم اے اس بیانیے کی سختی سے تردید کرتا ہے، جو کہ قیاس پر مبنی ہے اور بغیر کسی مناسب تجزیہ یا ثبوت کے دیا گیا ہے اور اس لیے یہ انتہائی گمراہ کن ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’قومی فارماسیوٹیکل انڈسٹری 70 فیصد سے زیادہ مارکیٹ شیئرز رکھتی ہے، ملک میں 90 فیصد ادویات قومی یا ملٹی نیشنل کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ مارکیٹ کا یہ اہم حصہ اس اعتماد کی عکاسی کرتا ہے جو طبی برادری گھریلو صنعت کاروں پر رکھتی ہے‘۔
’مزید برآں، اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان سے ادویات کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ گزشتہ سال فارماسیوٹیکل سیکٹر میں 25 فیصد سے زیادہ کی برآمدات کے ساتھ بہت نتیجہ خیز رہا ہے اور مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ معیاری مصنوعات کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟‘
پی پی ایم اے نے مزید کہا کہ ڈریپ نے اپنی نگرانی کے عمل کو نمایاں طور پر سخت کر دیا ہے۔ ’کسی کمپنی کو لائسنس حاصل کرنے یا کسی دوا کو رجسٹر کرانے کے لیے سخت کوالٹی کنٹرول اور پیداواری معیارات پر پورا اترنا پڑتا ہے، جو بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ مصنوعات اب کامن ٹیکنیکل ڈوزیئر (CTD) فارمیٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، جو جامع اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ اس میں سخت تشخیصات شامل ہیں جیسے کہ عام ادویات کے لیے چھ ماہ کا استحکام ٹیسٹ۔ ڈریپ کے ایویلیویشن سیل کی طرف سے نشاندہی کی گئی کسی بھی انحراف کے نتیجے میں درخواست کو اصلاحی کارروائی کے لیے واپس بھیج دیا جائے گا‘۔
پی پی ایم اے کا کہنا تھا کہ ’یہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی اہل لیبارٹریز بھی ہیں، جو کبھی بھی جانچ کر سکتی ہیں۔ کوئی بھی دوائیں جو تجویز کردہ خصوصیات سے باہر پائی جاتی ہیں انہیں واپس منگوا لیا جاتا ہے اور سخت کارروائیاں کی جاتی ہیں، یہ عمل دنیا بھر میں دواسازی کی صنعتوں میں عام ہے۔‘
بیان کے مطابق پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے سری لنکا، آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ، کمبوڈیا، ویت نام، فلپائن اور وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے ممالک میں ایک مضبوط برآمدی موجودگی قائم کی ہے۔
’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ کمپنیاں درآمدیممالک کے ریگولیٹری حکام کی جانب سے سخت معائنہ کیے بغیر مصنوعات برآمد نہیں کر سکتیں، جو صرف بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے والے پلانٹس کی منظوری دیتے ہیں۔‘
’اس لیے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کمیٹی کا بیان عوام میں غیر ضروری الجھن پیدا کر سکتا ہے۔ صنعت نے بحرانوں جیسے کہ کوویڈ وبا اور حالیہ سیلابوں کے دوران مقامی ادویات کے تقاضوں کو پورا کرکے اپنی صلاحیت کو ثابت کیا ہے‘۔
پی پی ایم اے نے زور دے کر کہا، ’اگر پاکستانی ادویات بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتیں، تو ملک کی فارماسیوٹیکل کمپنیاں انہیں برآمد بھی نہیں کر سکیں گی۔‘
پی پی ایم اے نے حکومت، پارلیمنٹ اور معزز کمیٹیوں پر زور دیا کہ وہ ’تکنیکی تجزیہ یا مناسب شواہد کے بغیر بیانات جاری کرنے‘ کے بجائے برآمدات کو 3 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے میں صنعت کی حمایت پر توجہ دیں۔
ایسوسی ایشن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس طرح کی رپورٹس پاکستان میں زرمبادلہ لانے کے لیے فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی کوششوں کو بھی بہت متاثر کریں گی۔
بیان میں کہا گیا کہ ’غیربنیادی ریمارکس اور اہم عہدوں پر موجود اہلکاروں کی طرف سے دیے گئے ریمارکس بھی غیر ضروری طور پر ملک اور ہماری ادویات کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس سے صرف یہ حاصل ہوتا ہے کہ ہم اپنے پڑوسی ملک ہندوستان (جو ہمارا حریف بھی ہے) کو ایک موقع فراہم کریں تاکہ ہماری دوائیوں کا منفی امیج بنایا جا سکے، جو ہماری قومی معیشت اور ترقی کے لیے اس نازک وقت میں ہماری برآمدات کو متاثر کر سکتی ہے‘۔
Comments are closed on this story.