بنگلا دیش جناح اور اُردو کی طرف جُھک گیا، بھارتی میڈیا کا واویلا
بنگلا دیش میں شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو پہنچی ہے اور اس تکلیف کا اظہار میڈیا کے ذریعے پوری قوت سے کیا جارہا ہے۔ بھارتی میڈیا ڈھائی ماہ سے بنگلا دیش کی صورتِ حال کو کچھ کا کچھ بناکر پیش کر رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بنگلا دیش اب مسلم شدت پسندوں کے ہاتھ میں آگیا ہے اور کبھی ہندوؤں سے امتیازی سلوک کا راگ الاپا جاتا ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ عوامی لیگ کا اقتدار ختم ہونے سے بنگلا دیش میں عوام کا جھکاؤ ایک بار پھر اُردو اور محمد علی جناح کی طرف ہوگیا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے اس حوالے سے خصوصی رپورٹ میں واویلا کیا ہے کہ سابق مشرقی پاکستانی کے لوگوں نے اپنی لسانی اور ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے پاکستان سے چھٹکارا حاصل کیا تھا مگر اب پھر وہی حالات پیدا ہو رہے ہیں۔
اس ”دکھ بھری“ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس اردو کی بالا دستی ختم کرنے کے لیے شیخ مجیب الرحمٰن اور اُن کے ساتھیوں نے مل کر تحریک چلائی تھی اور مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش میں تبدیل کیا تھا اُسی اردو کو اب بنگلا دیش کے عوام دوبارہ گلے لگارہے ہیں۔
بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹ نے بنگلا دیش کے لوگوں کو یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ 1952 میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے جنہیں بنگالیوں نے شہید کا درجہ دیا تھا۔
انڈیا ٹوڈے نے خاصے دُکھ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حال ہی میں محمد علی جناح کے یومِ وفات کے موقع پر اردو گیت پیش کیے گئے اور اس حوالے سے تقریریں بھی کی گئیں۔
انڈیا ٹوڈے نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا کہ جس بنگلا (بنگالی زبان) کے لیے لوگوں نے قربانی دی اور جو ملک کے قیام کی بنیاد بنی اُسی کو نظر انداز کرکے اب اردو کو گلے لگانے کا سوچا جارہا ہے۔
11 ستمبر 2024 کو ڈھاکا میں محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ ڈھاکا کے نیشنل پریس کلب میں بدھ کو ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں محمد علی جناح کو شاندار خراجِِ عقیدت پیش کیا گیا۔
مقررین نے یہ بھی کہا کہ اگر محمد علی جناح نہ ہوتے تو مشرقی بنگال پاکستان نہ بنتا اور اگر مشرقی پاکستان نہ ہوتا تو بنگلا دیش بھی نہ ہوتا یعنی یہ پورا خطہ بھارت ہی کی حدود میں رہتا اور اُس کا بغل بچہ ہوتا۔
Comments are closed on this story.