افغانستان میں 14 لاکھ لڑکیاں ثانوی تعلیم تک رسائی سے محروم
افغان دارالحکومت کابل سے تعلق رکھنے والی چودہ سالہ عائشہ عثمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث ہمارے لیے علم کا حصول ناممکن ہوگیا۔ اسکول جانا ممکن نہ تھا۔ ایسے میں خدشہ یہ تھا کہ میں تعلیم سے محروم رہ جاؤں گی۔ اس کے لیے میں نے واپنے والدین سے کہا کہ ہمیں ملک چھوڑ دینا چاہیے اور انہں نے میری بات مان لی اور یوں ہم کابل سے پشاور پہنچ گئے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد عائشہ عثمان اپنے والدین کے ساتھ پاکستان منتقل ہوئی۔ وہ افغانستان میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ پشاور پہنچنے کے بعد اُس نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پشاور میں اسے ایک ایسے نجی ادارے کے بارے میں معلوم ہوا جو افغان بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا تھا۔ اب وہ اسی ادارے میں زیرِتعلیم ہے۔
آج ڈیجیٹل نیوز سے گفتگو میں عائشہ عثمان نے کہا کہ فی زمانہ لڑکیوں کی زیادہ سے زیادہ تعلیم لازم ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ڈھنگ سے بروئے کار لاکر معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرسکیں۔ وہ انگریزی بھی سیکھ رہی ہیں اور جدید علوم بھی۔
پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والوں مکیں افغانستان کے صوبے ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد سے تعلق رکھنے والی زہرا مسکان بھی شامل ہے۔ اس نے پاکستان پہنچ کر اپنی تعلیم مکمل کی اور اب دیگر افغان پناہ گزین بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہے۔
زہرا مسکان نے بتایا کہ اس نے افغانستان سے آنے کے بعد آٹھ ماہ تک انگریزی پڑھی اور پھر اُسے اِسی دارے میں ٹیچر تعینات کردیا گیا۔ اب زہرا مسکان کہیں بھی پڑھا سکتی ہے۔
پشاور میں مقیم افغان باشندوں نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے تاکہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلواسکیں۔ اس نجی ادارے کے مالک شفیع اللہ ایوبی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقاصد افغان پناہ گزین بچوں کی ادھوری رہ جانے والی تعلیم جاری رکھنا تھا۔
آج نیوز ڈیجیٹل سے گفتگو میں شفیع اللہ ایوبی نے بتایا کہان کے ادارے میں انگریزی زبان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف کمپیوٹر کورسز بھی کرائے جاتے ہیں تاکہ افغان پناہ گزین بچے تعلیم کے جدید رجحانات سے بخوبی واقف ہوسکیں۔ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ جن بچوں کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہے وہ اُسے پوری کریں۔
اب تک درجنوں افغان بچے اس تعلیمی ادارے میں آچکے ہیں۔ چند ایسی طالبات بھی ہیں جنہوں نے یہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ہے۔
یہ ادارہ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے تحت چلایا جارہا ہے۔ فیس صرف اُن بچوں کے والدین سے لی جاتی ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ بصورتِ دیگر مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک افغانستان میں کم و بیش 14 لاکھ بچیوں کی تعلیم داؤ پر لگ چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں ایک پوری نسل کا مستقبل خطرے میں ہے۔ پشاور میں قائم یہ ادارہ ایسی تمام لڑکیوں اور ساتھ ساتھ لڑکوں کے لیے بھی امید کی کرن ہے۔
مصنف نے یہ آرٹیکل افغانستان کی خاتون صحافی زرغونہ حمیدی کے تعاون سے تیار کیا ہے
Comments are closed on this story.