بنگلا دیش کا موازنہ افغانستان سے نہ کیا جائے، ڈاکٹر محمد یونس
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے کہا ہے کہ بھارت کی حکومت اور میڈیا نے بنگلا دیش کے بارے میں جو بیانیہ اپنا رکھا ہے وہ بدلنا ہوگا۔ زہر افشانی کا سلسلہ روکنا ہوگا۔
ڈاکٹر یونس کا استدلال ہے کہ بنگلا دیش کے حالات کا موازنہ افغانستان سے کرنا کسی بھی طور درست نہیں۔ بھارت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ شیخ حسینہ واجد کے بغیر بھی بنگلا دیش میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے خصوصی انٹرویو میں بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر (عبوری وزیرِاعظم) ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ بھارت کی قیادت تواتر سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ بنگلا دیش اب جنونی اسلام پسندوں کے ہاتھ میں ہے جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اسلام نواز ہے مگر باقی سیاسی عناصر تو اعتدال کے ساتھ ہی چل رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ بنگلا دیش میں مسلم شدت پسندوں کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
ایک سوال پر ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ بھارت ایک بڑا اور اہم ملک ہے جس سے تعلقات بہتر رکھنا بنیادی ضرورت ہے۔ بھارتی قیادت کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ بنگلا دیش ویسا ہی ہے جیسے اُس کے دوسرے پڑوسی ہیں۔
بنگلا دیش کے خلاف پروپیگنڈا ختم ہونا چاہیے۔ بھارتی میڈیا ہر معاملے کو بڑھا چڑھاکر پیش کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شیخ حسینہ واجد کو پناہ دے کر بھارت نے بنگلا دیشیوں کی اکثریت کو ناراض کیا ہے۔
بنگلا دیش کی عبوری انتظامیہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ملک میں ہندوؤں پر حملے ضرور ہوئے ہیں مگر اُن کی نوعیت سیاسی ہے نہ مذہبی یا فرقہ وارانہ۔ سیاسی اختلافات پر کسی کو نشانہ بنائے جانے پر اُسے فرقہ وارانہ رنگ دینا کسی طور مناسب نہیں مگر بھارتی میڈیا یہی کر رہے ہیں۔
اور تو اور، خود بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بھی سرکاری سطح پر بنگلا دیش کے ہندوؤں پر حملوں کی بات کرچکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی قیادت جو بائیڈن انتظامیہ اور یورپی ممالک پر بھی زور دے رہی ہے کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں پر حملوں کی مذمت کریں۔
ڈاکٹر یونس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ وہاں ادارے ڈھنگ سے کام نہیں کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں تو ادارے ہیں ہی نہیں۔ بنگلا دیش ایک منظم اور مستحکم ملک ہے۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد معاملات کو درست کرنے میں کچھ وقت لگا مگر خیر اب معاملات متوازن ہیں۔ سیاسی اور معاشی استحکام یقینی بنانے میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ لوگوں کا نئے نظام پر اعتماد بھی بڑھ رہا ہے۔
الیکشن کے بعد جب حقیقی نمائندہ حکومت قائم ہوگی تب ملک میں حقیقی جمہوری انداز کی طرزِ حکمرانی بھی یقینی بنائی جاسکے گی اور عوام کے بنیادی مسائل ڈھنگ سے حل کیے جاسکیں گے۔
Comments are closed on this story.