نوجوان پارٹ ٹائم کتّے ٹہلا کر ماہانہ 26 ہزار سے ڈھائی لاکھ روپے تک کمانے لگے
کورونا وائرس کی علامی وبا کے پالتو جانوروں کو ٹہلانے والوں کی مانگ آسمان چھونے لگی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیرونی سرگرمیاں محدود ہوئیں تو پالتو جانور پالنے والوں نے اپنے کتوں کو باقاعدہ ورزش اور سماجی تعامل دینے کے لیے نوجوان ”ڈاگ واکرز“ کا سہارا لیا، اور اس کام سے نہ صرف انتہائی ضرورت کے دنوں میں کچھ لوگوں کی مالی مدد ہوئی اور کتوں کے لیے لوگوں کی محبت ایک ایک منافع بخش کاروبار میں بدل گئی۔
بھارت میں لوگوں نے اس حوالے سے باقاعدہ کمپنیاں بھی قائم کرلی ہیں جو کتوں کو ٹہلانے کے علاوہ دیگر خدمات بھی فراہم کرتی ہیں۔
حالانکہ ہندوستان میں یہ کام نسبتاً نیا ہے، لیکن امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسی جگہوں پر زیادہ قائم شدہ ہے، جبکہ پاکستان میں شاذ و نادر ہی کوئی یہ کام کرتا ملے گا۔
لوگوں کے کتوں کو ٹہلانے کا کام کرنے والے کو ڈاگ واکر کہا جاتا ہے جو لوگوں کے کتوں کو باقاعدگی سے سیر کے لیے باہر لے جاتا ہے۔ وہ پالتو جانوروں کو فعال رکھنے، صحبت پیش کرنے، اور کتوں کو کافی سماجی تعامل کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کئی طالب علم پارٹ ٹائم یہ پیشہ اپناتے ہیں، اور کتوں کو ٹہلا کر اچھی خاصہ کمائی کر لیتے ہیں۔
پالتو جانوروں کے مالکان کو ڈاگ واکر کی مدد سے تو فائدہ ہوتا ہے، لیکن خود واک کرانے والوں کے لیے اس میں کیا فائدہ ہے؟
ڈاگ واکنگ کی ایک کمپنی ”The Pet Nest“ چلانے والے چندرکانت بتاتے ہیں، ’ہم کمیشن پر مبنی ماڈل پر کام کرتے ہیں۔ جب کوئی ڈاگ واکر ہمارے ساتھ شامل ہوتا ہے، تو وہ کل آرڈر ویلیو کا 80 فیصد وصول کرتا ہے، جب کہ ہم پلیٹ فارم فیس کے طور پر 20 فیصد لیتے ہیں۔ آرڈر کی قیمت 1,000 روپے سے 15,000 بھارتی روپے تک ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، 1,000 روپے کے پیکج میں واکر کو ہفتے میں چھ دن کتے کو ٹہلانے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے برعکس، 15,000 روپے کے پیکیج میں مہینے میں 28 دن کتے کو گھمانا شامل ہوگا‘۔
تاہم،م ان کا کہنا ہے کہ ’فیس کی کوئی معیاری شرح نہیں ہے، یہ جگہ کے لحاظ سے وسیع پیمانے پر مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ممبئی کے کچھ حصوں میں کتے کو سیر کرانے والا ماہانہ 80,000 روپے سے زیادہ کما سکتا ہے (جوکہ پاکستانی ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ بنتے ہیں)، جب کہ دوسرے علاقوں میں، یہ کم از کم 8000 روپے تک ہوسکتا ہے۔ کمائی کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے، بشمول محل وقوع اور پالتو جانوروں کی مخصوص ضروریات‘۔
Comments are closed on this story.