Aaj News

اتوار, ستمبر 15, 2024  
10 Rabi ul Awal 1446  

کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ہائی کورٹ کے جج کی ڈگری منسوخ کردی

پولیس نے ایک سنڈیکیٹ ممبر کو اجلاس میں شرکت سے روکنے کیلئے 'غیرقانونی طور پر' گرفتار بھی کیا
اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2024 07:19am

جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ نے اپنی اَن فیئر مینز کمیٹی (یو ایف ایم) کی سفارش پر ایک امیدوار کی ڈگری اور انرولمنٹ منسوخ کر دی ہے، میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ امیدوار ہائی کورٹ کے ایک جج ہیں۔

انگریزی اخبار ”ڈان“ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ فیصلہ اکیڈمک اور سنڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کی حراست کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جنہیں پولیس نے اہم اجلاس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کے طور پر اٹھا لیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو سنڈیکیٹ کی جانب سے ڈگری منسوخ کرنے کے فیصلے کے بعد رہا کیا گیا۔

ڈان کے مطابق رہائی کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا کے کچھ ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ ڈگری معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری ملوث تھے۔

سنڈیکیٹ کا اجلاس ہفتہ کی سہ پہر ہونا تھا، رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ریاض نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 40 سال بعد جج کی قانون کی ڈگری سے متعلق کیس سے متعلق ایجنڈا آئٹم پر پہلے ہی اعتراض کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ریاض نے دعویٰ کیا کہ انہیں رات ایک بجے کے قریب ٹیپو سلطان روڈ سے اس وقت اٹھایا گیا جب وہ میٹنگ میں شرکت کے لیے کراچی یونیورسٹی جا رہے تھے۔

بعد ازاں سنڈیکیٹ کا اجلاس ڈاکٹر ریاض کے بغیر ہوا اور دیگر فیصلوں کے علاوہ ڈگری کی منسوخی کی منظوری دی گئی۔

کراچی یونیورسٹی کی ایک پریس ریلیز کے مطابق، ’اراکین نے یو ایف ایم کمیٹی کی سفارشات کی بھی منظوری دی، جس نے غیر اخلاقی کاموں میں ملوث پائے جانے والے امیدواروں کی ڈگری اور انرولمنٹ کارڈ منسوخ کرنے کی تجویز دی۔‘

پریس ریلیز میں کسی امیدوار کا نام نہیں بتایا گیا۔

خیال رہے کہ دو ماہ قبل، سوشل میڈیا پر ایک خط گردش کرنا شروع ہوا تھا، جو مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جسٹس طارق جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔

یہ خط مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کی جانب سے سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت معلومات کی درخواست کا جواب تھا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، امتیاز احمد نے 1987 میں اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔

مزید برآں، طارق محمود نے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے داخلہ لیا۔

خط میں ڈگری کو بوگس قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے غلط قرار دیا گیا، اور وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے، جس سے طالب علم کے لیے دو نمبر رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

Karachi university

fake degree

KU Syndicate

Unfair Means Committee

Justice Tariq Mehmood Jahangiri