بھارتی قیادت نے بنگلا دیشی ہندوؤں کا معاملہ اُچھالنا شروع کردیا
بھارتی قیادت نے بنگلا دیش میں ہندوؤں پر مظالم کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ امریکا چند ہفتوں کے دوران بنگلا دیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنا ردِعمل دے اور بالخصوص بنگلا دیشی ہندوؤں کی پوزیشن کے بارے میں اپنے رائے کا اظہار کرے۔
بھارتی میڈیا پر یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ہندوؤں پر سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں مگر امریکا نے، جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا چیمپین بنا پھرتا ہے، چپ سادھ رکھی ہے۔
بھارتی میڈیا نے اس بات پر بھی خاصا واویلا مچایا ہے کہ حال ہی میں بھارتی وزیرِاعظم اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیے میں بھی بنگلا دیشی ہندوؤں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں دعوٰی کیا ہے کہ امریکا نے بنگلا دیش کے معاملے میں چپ اس لیے سادھ رکھی ہے کہ بنگلا دیش کے حوالے سے اس کے اور بھارت کے مفادات میں بہت واضح فرق ہے۔
انڈیا ٹوڈے کا اپنی رپورٹ میں دعوٰی ہے کہ امریکا 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش میں تبدیل کرنے کا خواہاں نہیں تھا۔ یہی سبب ہے کہ اس نے بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران اور اُس کے بعد پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مدد کی۔
بھارت کے بیشتر میڈیا آؤٹ لیٹس نے چاہا ہے کہ امریکی حکام جب بھی بھارتی قیادت سے ملاقات کریں تو بنگلا دیش کے ہندوؤں کی بات کریں۔ وہ دراصل یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جو کچھ غزہ میں اسرائیلی فوج کر رہی ہے کچھ کچھ ویسا ہی بنگلا دیش میں ہندوؤں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر سے پابندی ہٹادی گئی
بھارتی میڈیا یہ نہیں بتارہے کہ طلبہ تحریک کے دوران اور اُس کے بعد نام نہاد حملوں میں بنگلا دیش کے کتنے ہندو مارے گئے ہیں۔
بھارتی ویزا کے اجرا میں تاخیر پر بنگلا دیشیوں کی ہنگامہ آرائی
Comments are closed on this story.