Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

لامحدود امریکی مدد کے باوجود تلاش ناکام، اسرائیلی فوجی کو یحییٰ سنوار کی ’کافی‘ مل گئی

حماس کے نئے سربراہ کا سراغ لگانا ایسا ہی ہے جیسے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالنا، نیو یارک ٹائمز
شائع 26 اگست 2024 07:07pm

نیو یارک ٹائمز نے بتایا ہے کہ حماس کے نئے سربراہ یحیٰ سنوار کو تلاش کرنا القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے جیسا ہے۔ یہ پیچیدہ اور بدحواس کرنے والی تلاش ہے۔ یحیٰ سنوار کے بارے میں یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف حماس کی موجودہ کارروائیوں میں پوری طرح شریک ہیں۔ ان کا تمام اہم شخصیات سے رابطہ رہتا ہے۔

اسرائیلی کمانڈوز نے جنوری کے آخر میں غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک ٹنل کمپلیکس پر چھاپہ مارا تھا۔ یہ کارروائی یحیٰ سنوار کی تلاش میں تھی۔ پتا چلا کہ اس زیرِزمین بنکر سے وہ کچھ دن قبل ہی منتقل ہوئے ہیں۔

امریکی اور اسرائیلی حکام نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کو دستاویزات اور 10 لاکھ ڈالر مالیت کے شیکلز (اسرائیلی کرنسی) ملے تاہم یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یحیٰ کہاں منتقل ہوئے ہیں۔ ایک اسرائیلی فوجی کو بنکر میں یحیٰ سنوار کی چھوڑی ہوئی کافی بھی ملی۔

اسرائیلی اخبار ہاریز کے مطابق یحیٰ سنوار حماس کے سرکردہ ارکان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ کوریئرز کے ذریعے وہ مذاکرات کاروں سے بھی رابطہ بنائے رکھتے ہیں۔ شِن بیت نامی سیکیورٹی ایجنسی کو یحیٰ سنوار کا سراغ لگانے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔

امریکا نے اسرائیل کو غیر معمولی نوعیت کے آلات فراہم کیے ہیں۔ زمین کے اندر موجود چیزوں کی نشاندہی کرنے والے راڈار بھی ان آلات میں شامل ہیں۔ اسرائیلی حکام نے بھی امریکی آلات کو ایسا تحفہ قرار دیا ہے جن کی قیمت آنکی نہیں جاسکتی۔

غزہ میں جاری لڑائی کے ابتدائی مہینوں میں یحیٰ سنوار سیل ون اور سیٹلائٹ فون بھی استعمال کرتے تھے۔ اسرائیلی وزیرِدفاع یوآو گیلنٹ شاید اسی لیے چاہتے تھے کہ حماس کو ایندھن کی فراہمی جاری رہے تاکہ سرنگوں میں سیل فون نیٹ ورک بھی کام کرتا رہے۔

امریکی حکام کو یقین ہے کہ یحیٰ سنوار کو گرفتار یا قتل کرنے سے غزہ کی لڑائی پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوں گے۔ چند حکام کو یہ بھی امید ہے کہ اس صورت میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو یہ دعوٰی کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حماس کا صفایا کردیا گیا ہے۔

New York Times

Search Operation

Yahya Sinwar

DIFFICULT TO TRACE