کنٹینر لگا کر راستے روکنا ملک میں عدم استحکام اور نظام کی ناکامی کی نشانی ہے، شاہد خاقان عباسی
عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ جوبھی قانون توڑے گا اس کا ٹرائل تو ہوگا، فیض حمید سابق فوجی ہیں، اس لئے ان کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوگا، جنرل فیض کے معاملے پر میڈیا ٹرائل کو درست نہیں سمجھتا۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 2017 کے فیض آباد دھرنے میں حکومتی رٹ جب ختم ہوگئی تب معاہدہ ہوا اور وہ معاہدہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کہنے پر ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک کمیٹی جس میں ایک وزیر اور جنرل فیض بھی تھے، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ معاہدہ ہوجائے۔ میری احسن اقبال کو ہدایات تھیں کہ آپ دستخط مت کریں لیکن انہوں نے کیا اور پوچھنے پر کہا کہ یہ مظاہرین کا اصرار تھا، اس طرح ذمہ داری میری بھی آگئی۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ میرا وزیر کرتا ہے وہ ذمہ داری پھر میری بھی ہوتی ہے۔ جب وزیر بیچ میں آجاتا ہے تو کابینہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے، عام طور پر ایسے معاہدے آئی جی یا ڈی سی وغیرہ کرتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے اس معاملے پر پولیس افسران سے میٹنگ کی اور ہمارا منصوبہ یہ تھا کہ اس کو لمبا چلائیں خود ہی تھک کر چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے مظاہرین کو نہیں روکا، ان پر ماڈل ٹاؤن واقعے کے بعد پریشر تھا، وہاں کی پولیس نے معذرت کرلی تھی۔
عمران خان کے اوپن ٹرائل والے بیان پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فوج کے ٹرائلز اوپن ٹرائل نہیں ہوتے، فوج کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، لیکن مجھے یاد نہیں کہ کوئی کورٹ مارشل اوپن ہوا ہو۔
انہوں نے خواجہ آصف کے بیان پر کہا کہ عمران خان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیسے ہوگا، جب تک کہ وہ کسی فوجی تنصیبات پر حملے یا نقصان میں ملوث نہ ہو۔
شاہد خاقان عباسی نے علیمہ خان کے عمران خان سے اعظم سواتی کی ملاقات والے بیان پر کہا کہ اس پارٹی میں کوئی لیڈر شپ کا کوئی نظام نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو ملک کنٹینر لگا کر راستے روکے تو یہ اس میں عدم استحکام کی نشانی ہے، اس کا مطلب ہے آپ کا نظام ناکام ہوگیا۔
انہوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ملاقات کے حوالے سے کہا کہ یہ ملاقات گورننس کے مسائل حل کرنے کیلئے نہیں اپنے معاملات بہتر کرنے کیلئے ہے۔
Comments are closed on this story.