مبارک ثانی کیس: سپریم کورٹ نے حکومتی اپیل منظور کرتے ہوئے فیصلے کے متنازع پیراگراف حذف کردئے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی نظرثانی فیصلے میں درستگی سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے ہوئے نظرثانی فیصلے کے پیراگراف نمبر 7 کو حذف کردیا۔ عدالت نے 6 فروری اور 20 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگراف حذف کردیے ہیں اور ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی مخصوص پیراگراف کو حذف کرنے کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد علماء کرام عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے، 29 مئی کو عدالت کا ایک فیصلہ آیا، علماء کرام اوراراکین پارلیمنٹ نے وفاق کو درخواستیں دیں۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ کو مبارک ثانی کیس فیصلے پر بریفنگ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں کچھ ایسے پیراگراف تھے جن پر عدالت کی توجہ چاہتے ہیں، یہ دینی معاملہ ہے، عدالت مناسب سمجھے تو علماء کرام سے سن لے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو یہ درخواست پارلیمنٹ نے لانے کی ہدایت کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم کی جانب سے ہدایت کی تھی، اسپیکر قومی اسمبلی نے خط لکھا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انسان قول و فعل سے ہی پہچانا جاتا ہے، پارلیمنٹ کی ہر بات سر آنکھوں پر، اچھی بات ہے پارلیمنٹ نےآپ کو حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اگر ہم سےکوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سےعلماء کرام عدالت میں موجود ہیں؟ جس پر مولانا فضل الرحمان عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ تعین کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری کون کون رہنمائی کرے گا۔
چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں، ہم دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔
اس دوران مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے لطیف کھوسہ اور حامد رضا کو بات کرنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے یہ واضح کر رہے ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے کہ میں بطور رکن پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی ممبر پیش ہو رہا ہوں، صاحبزادہ حامد رضا کے نکتہ اعتراض پر ہی سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے صاحبزادہ حامد رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ دیگر علماء سے بڑے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ درس نظامی کا فاضل ہوں، کسی سے بڑے ہونے یا برابری کا دعویٰ نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اور عدالتی کارروائی چلنے دیں۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ عدالت کا پورا فیصلہ ہی غلط ہے، ہم چاہتے ہیں پورا عدالتی فیصلہ ہی واپس لیا جائے۔
مفتی تقی عثمانی نے ویڈیو لنک پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نظرثانی کیس میں جو رائے دی اس کو شاید نظر انداز کیا گیا، نظر ثانی درخواستوں کے فیصلے میں کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا، اچھی بات ہے کہ چیف جسٹس پاکستان فیصلوں میں آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہے تو عدالت کی رہنمائی کی جائے، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔
عدالت نے مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور دیگرعلماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا، ابوالخیر محمد زبیر اور جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔
اس دوران مفتی تقی عثمانی نے فیصلے کے دو پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیراگراف نمبر 7 اور 42 کو حذف کیا جائے۔
مفتی تقی عثمانی نے مقدمہ سے دفعات ختم کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے، عدالت نے لکھا کہ قادیانی مبارک ثانی نجی تعلیمی ادارے میں معلم تھا، گویا عدالت نے تسلیم کرلیا کہ قادیانی ادارے بناسکتے ہیں، عدالت نے کہا قادیانی بند کمرے میں تبلیغ کرسکتے ہیں، قانون کے مطابق قادیانیوں کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں، عدالت نے سیکشن 298C کومدنظر نہیں رکھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم وضاحت کردیں تو کیا یہ کافی ہوگا؟ جس پر مفتی تقی عثمانی بولے عدالت وضاحت کے بجائے فیصلے کے متعلقہ حصہ حذف کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں قرآن مجید، احادیث اور فقہ کا حوالہ دیتا ہوں مگر شاید میری کم علمی ہے، میرا مؤقف ہے کہ ہم امریکہ برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں، کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ میں آپ کی خدمت میں یہ سب باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ شرمندہ نہ کریں ہمارے بزرگ اور بڑے ہیں آپ کا بہت احترام ہے۔
چیف جسٹس نے مفتی تقی عثمانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق دو پیراگراف ختم ہونے چاہئیں، مزید کچھ کہنا چاہیں تو بتا دیں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیرمسلم تسلیم نہیں کرتے، قادیانیوں کو پارلیمنٹ میں بھی نشستیں دی گئیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2002 کے بعد قانون تبدیل ہوگیا اور قادیانیوں کی ایک نشست تھی جو ختم کر دی گئی، اب صرف اقلیت کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہیا کہ قادیانی مسلم کے بجائے اقلیت کے طور پر رجسٹر ہوسکتے ہیں، اقلیت خود کو مان لیں تو پھر ان کو اقلیتوں کی نشستیں بھی مل سکتی ہیں، میرے پاس ان مسائل سے متعلق کتاب ہے عدالت چاہے تو فراہم کردوں گا۔
اس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلالیا۔
چیف جسٹس نے کہا مولانا صاحب آپ کے آنے کا شکریہ۔ مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی گزارشات کی حمایت کردی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر مذہبی جماعتوں اور علماء کرام نے آراء دی ہیں، جو تحفظات ہیں سب آپ کے سامنے ہیں، پہلی بار عدالت کے سامنے کھڑا ہوا ہوں، ختم نبوت کے معاملے پر آج یہاں کھڑا ہوں، قادیانی فرقہ پوری امت مسلمہ کو غیرمسلم کہتا ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت پورے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
اس موقع پر چیف جسٹس بولے کہ والد صاحب کے انتقال پرمفتی محمود صاحب تعزیت کیلٸے گھر آئے، باتیں کرنا کچھ اورہے اورکرکے دکھانا کچھ اور ہے، تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتا، گرداس پور اور فیروز پور ہمیں ملتے تو کشمیر ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا، پاکستان کیلٸے جنگ میرے والد صاحب نے بھی لڑی، میرے والد نے ہر چیز پاکستان کیلٸے لگادی، کسی نے مجھے قتل کی دھمکی دی، میں نے کسی سے بدلہ نہیں لیا ۔
جس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آپ شکایت کا ازالہ کر رہے ہیں یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، عزت اور ذلت دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، یہ مقدمہ مبارک ثانی کی ضمانت کا تھا، عدالت اپنے فیصلے کو ضمانت تک محدود رکھے، مبارک ثانی کا ٹرائل متعلقہ عدالت میں چلتے رہنا چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی جگہ فرید پراچہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں فیصلے میں ترمیم ہونی چاہیے، تمام مسلمان ختم نبوت پر متفق ہیں۔
سید جواد نقوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرائے متصادم ہیں، چیف جسٹس نے غلطی تسلیم کرکے شجاعت کا مظاہر کیا، حکومت اور عدالت جب اپنا حقیقی کردار ادا نہ کریں تو عوام میں اشتعال پھیلتا ہے، جج کو دباؤ میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس دن میں نے دباؤ میں آکر فیصلے کٸے اسی دن گھر چلا جاؤں گا۔
مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ اکثر فیصلوں میں قرآنی آیات و احادیث کا حوالہ دیتی ہے، چیف جسٹس کی جانب سے اسلامی اصولوں کا حوالہ دینا قابل تحسین ہے، کچھ جگہوں پر قرآنی آیات کے حوالے سے ابہام بھی پیدا ہوجاتا ہے، اسلامی تعلیمات میں ابہام آجائے تو دور کرنا لازمی ہے۔
اس دوران مفتی منیب الرحمان کے نمائندے نے بھی دیگر علماء کی رائے سے اتفاق کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کیس کے پہلے فیصلے واپس لے کر نیا فیصلہ جاری کر دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس تجویز پر ضرور غور کریں گے۔
کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ آیات اور احادیث کا حوالہ درست اور سیاق و سباق کے مطابق دینا ضروری ہے، عدالت یہ بھی تعین کرے کہ آئین کو نہ ماننے والے قادیانیوں سے کیسے نمٹا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے آئین پر عمل کرنے کے پابند ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ قادیانی خود کو اقلیت مانیں تو انہیں آئینی حقوق مل سکتے ہیں، آپ کے اس نکتے سے مکمل اتفاق ہے۔
پروفیسر ساجد میر کے نمائندے ایڈوکیٹ حافظ احسان کھوکھر بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ سپریم کورٹ 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلے کو ختم کرکے نیا فیصلہ جاری کرے، اگر پہلے والے فیصلے برقرار رہے تو مستقبل میں ان کا حوالہ دیا جائے گا، اس کیس کے تمام فیصلے ملا کر نیا فیصلہ دیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح فیصلے ملانے کی کوئی عدالتی نظیر ہو تو بتا دیں۔ جس پر حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ اس سے متعلق سپریم کورٹ کو ریکارڈ فراہم کر دوں گا۔
مولانا فضل الرحمان نے بھی حافظ احسان کھوکھر کی تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ اس کیس کے پہلے فیصلے واپس لے کر نیا فیصلہ جاری کر دے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس تجویز پر ضرور غور کریں گے۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں نظر ثانی اپیل پر علماء کرام کی تجاویز منظور کرلی، عدالت نے درستگی سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے 6 فروری اور 20 جولائی کے فیصلوں سے متنازع پیراگراف حذف کردئے۔
سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلے کے پیراگراف 7، 42 اور 49 سی کو حذف کردیا۔
حذف کردہ پیراگرافس میں قادیانیوں کی ممنوعہ کتاب، قادیانیوں کی تبلیغ سے متعلق ذکر کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ مبارک ثانی نظرثانی فیصلے کے حذف شدہ پیراگراف کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے ٹرائل کورٹ کو مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لینے کا حکم بھی دیا۔
Comments are closed on this story.