برطانیہ میں چاقو حملے میں ہلاکت کے بعد جھوٹی معلومات کی کھوج لاہور تک پہنچ گئی
برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ میں تین کمسن لڑکیوں پر چاقو حملے کے بعد بڑے پیمانے پر پرتشدد ہنگامے کو ایک ہفتہ گزار جانے کے بعد پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ان دعوؤں کی تحقیقات میں مصروف ہیں کہ یہ حملے سے متعلق غلط معلومات ایک ایسی ویب سائٹ سے شروع ہوئی جس کا تعلق پاکستان سے ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے میڈیا کی طرف سے نشر ہونے والی حالیہ رپورٹس میں ایک غیر معروف پلیٹ فارم Channel3Now کی نشاندہی کی گئی ہے، جو غلط معلومات پھیلاؤ کا باعث بنی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانوی نژاد 17 سالہ مشتبہ شخص ایک مسلمان تارک وطن تھا جو ایک کشتی پر برطانیہ پہنچا تھا۔
لاہور کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) فیصل کامران نے بتایا کہ وہ برطانیہ کے براڈکاسٹر آئی ٹی وی نیوز کے دعوؤں کا جائزہ لے ہیں اور تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
اس معاملے پر دونوں حکومتوں کے درمیان کسی باضابطہ رابطوں کے بارے میں تصدیق نہیں ہوسکی لیکن مقامی قانون نافذ کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ٹی وی کی رپورٹ میں جس شخص کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ویب سائٹ کے لیے کام کرنے والا ایک فری لانسر تھا، جو برطانیہ اور امریکا سے جرائم سے متعلق خبروں کو جمع کرتا ہے اور کلکس اور اشتہاری آمدنی کی خاطر خبروں کو دوبارہ شائع کرتا ہے۔
واضح رہے کہ بی بی سی نے تحقیقاتی نیوز میں Channel3Now سے منسلک کئی لوگوں کا سراغ لگایا جو مذکورہ پلیٹ فارم “جرائم کی خبروں کو جمع کرکے انہیں سنسنی خیز بنا کر پیسہ کماتے ہیں اور اس نیوز ویب سائٹ پر پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک سے فری لانسر مصنفین کو بھرتی کرتا ہے۔
بی بی سی نے Channel3Now کے پیچھے لوگوں کا سراغ لگایا، جن میں پاکستان، کینیڈا اور امریکہ کے افراد شامل ہیں۔
اس پلیٹ فارم سے منسلک ایک شخص جس نے اپنا نام کیون بتایا، انکشاف کیا کہ امریکہ، برطانیہ، پاکستان اور بھارت میں ”30 سے زیادہ“ لوگ ہیں جو اس سائٹ کے لیے کام کرتے ہیں اور وہ سب فری لانسرز ہیں۔
برطانیہ: ڈانس ورکشاپ میں چاقو سے دو بچے ہلاک اور 9 زخمی
لاہور سے Channel3Now کے لیے کام کرنے والے لاہور میں مقیم فرحان آصف سے کیے گئے انٹرویو کو آئی ٹی وی نے شائع کیا جس میں فرحان آصف کو ’جھوٹ کو فروغ دینے والی نیوز ویب سائٹس کے نیٹ ورک میں ایک اہم کردار‘ قرار دیا۔
علاوہ ازیں آئی ٹی وی کے مطابق Channel3Now امریکی طرز کا ٹی وی چینل ہونے کا تاثر دیتا ہے جہاں صرف سنسنی خیز خبریں شائع ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس بی بی سی نے کیون کے حوالے سے کہا کہ فرحان آصف ساؤتھ پورٹ کی جھوٹی کہانی میں ملوث نہیں تھے، جس کے لیے نیوزسائٹ نے عوامی طور پر معافی مانگی ، اور ’برطانیہ میں مقیم ٹیم“ کو مورد الزام ٹھہرایا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ کچھ رپورٹس میں فری لانسر کو صحافی کہا جاتا ہے لیکن لاہور کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی ان کے بارے میں نہیں سنا۔
Comments are closed on this story.