Aaj News

اتوار, ستمبر 22, 2024  
17 Rabi ul Awal 1446  

’پاکستانی برآمدات میں اضافے کیلئے زرمبادلہ برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے‘

شعبے میں عالمی موجودگی کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں، توقیر الحق
شائع 12 اگست 2024 04:53pm
Pharma sector says increasing forex retention rate from 15% to 35% will increase exports

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین توقیر الحق کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو زرمبادلہ برقرار رکھنے کی اجازت دینے سے پاکستان کو برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔

توقیر الحق نے بزنس ریکارڈر کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی غیر استعمال شدہ صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملک بھارت کی دواسازی کی برآمدات پاکستان کے 300 ملین ڈالر کے مقابلے میں حیرت انگیز طور پر 28 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

توقیر الحق نے اس شعبے میں عالمی موجودگی کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے لیے بے پناہ مواقع کی موجودگی پر زور دیا۔

توقیر الحق نے بزنس ریکارڈر کو بتایا، ’پاکستان میں دواسازی کی برآمدات کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ اس وقت، پاکستان کی برآمدات تقریباً 300 ملین ڈالر ہیں۔ ہمارے پاس اپنی برآمدات بڑھانے کا بہت بڑا موقع ہے‘۔

فارما سیکٹر کی برآمدات 3 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن، حکومت کا تعاون بنیادی شرط

چیلنجز

توقیر الحق نے ان مختلف چیلنجوں کا خاکہ پیش کیا جن کا سامنا صنعت کو غیر ملکی منڈیوں میں داخل ہونے کی کوشش میں کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر صنعتوں کے برعکس، دواسازی کی مصنوعات کو برآمد کرنا ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔ کسی پروڈکٹ کے مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے اس میں ضابطے، معائنہ اور منظوری کی متعدد پرتیں شامل ہوتی ہیں۔

توقیر الحق کہتے ہیں، ’سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ عمل ہے‘۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے، آپ کو درخواست دینا ہوگی، پھر ملک کی ریگولیٹری ٹیم آپ کے پلانٹ کا معائنہ کرنے کے لیے آتی ہے کہ آیا یہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہے ای نہیں۔ اس کے بعد آپ کو ایک ڈوزیئر جمع کرانا ہوگا اور پروڈکٹ رجسٹرڈ ہو جائے گی۔ پھر ایک برانڈ قائم کرنا ہوگا۔‘

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صرف دوائیں تیار کرنا کافی نہیں ہے۔ صنعت کو بین الاقوامی مارکیٹنگ اور برانڈ کے قیام کی پیچیدگیوں کو بھی نیویگیٹ کرنا چاہیے، جس کے لیے تقسیم، پے رول، مارکیٹنگ، اور مشاورتی خدمات میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’آپ کے پاس بیرون ملک ایک تقسیم کار ہونا ضروری ہے، اور آپ کی ایک ٹیم ہونی بھی ضروری ہے، تنخواہ کی بھی ضرورت ہے۔ ایک برانڈ قائم کرنا ہوگا، مارکیٹنگ کرنی ہوگی، کنسلٹنٹس کو بھی ادائیگی کرنی ہوگی‘۔

فارما اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے بھی معاشی بحران کا شکار

کرنسی برقرار رکھنا، ایک بڑی رکاوٹ

سابق چئیرمین پی پی ایم اے کے مطابق مطابق، سب سے اہم رکاوٹوں میں سے ایک دواسازی کی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو برقرار رکھنے پر پابندی ہے۔ فی الحال، پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو اپنی برآمدی آمدنی کا صرف 15 فیصد رکھنے کی اجازت ہے، جس سے بیرون ملک مارکیٹنگ اور تنخواہوں سے منسلک اخراجات کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

توقیر الحق کی وضاحت کی کہ ’چونکہ ہم اپنی برآمدی آمدنی کا 15 فیصد سے زیادہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، اس لیے بیرون ملک مارکیٹنگ کرنا اور تنخواہیں ادا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے‘۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کو اپنی برآمدی رسیدوں کا 35 فیصد رکھنے کی اجازت دی ہے اور تجویز دی ہے کہ ایسی ہی سہولت فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو بھی دی جائے۔

توقیر الحق نے کہا ، ’اگر ہم اپنے پڑوسی ملک ہندوستان کو دیکھیں تو فارماسیوٹیکل سیکٹر اپنی برآمدی رسیدوں کا 50 فیصد اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے، ہم برآمدات بڑھانے سے قاصر ہیں۔ ہم موجودہ برآمدات میں فوری طور پر اضافہ کر سکتے ہیں اگر حکومت زر مبادلہ کی آمدنی میں کم از کم 35 فیصد تک اضافہ کر دے، جیسا کہ آئی ٹی سیکٹر کو کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔‘

ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تو نقصان مریض اٹھائے گا

ترقی کے لئے ایک باہمی تعاون کا نقطہ نظر

توقیر الحق کا خیال ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو دواسازی کی صنعت تین سے چار سالوں میں برآمدات میں دس گنا اضافہ دیکھ سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر 3 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت، صنعت اور ریگولیٹری اداروں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت کے ساتھ بات کی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ صنعت اور حکومت کو برآمدات پر تعاون اور توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم برآمدات میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں‘۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کے ساتھ دو سال تک بات چیت کے باوجود کوئی ٹھوس حل نہیں نکالا گیا۔ اس کے باوجود وہ پر امید رہے اور تبدیلی کی وکالت کرتے رہے۔

توقیرالحق نے ہندوستان کی فارماسیوٹیکل ایکسپورٹ پروموشن کونسل (Pharmexcil) جیسی کمیٹی کی ضرورت پر روشنی ڈالی، جس میں صنعت، تجارت کی وزارت، اور ریگولیٹری حکام کے نمائندے شامل ہوں۔ اس طرح کی کمیٹی معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (SOPs) قائم کر سکتی ہے اور اس شعبے میں چیلنجز اور مواقع سے نمٹ سکتی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ’اگر ہم ایک ہی پیج پر اکٹھے ہو سکتے ہیں، تو یقینی طور پر دواسازی کی صنعت کے لیے برآمدات بڑھانے کا بہت بڑا موقع ہے‘۔

پاکستانی فارما انڈسٹری کی برآمدات 5 بلین ڈالر تک پہنچانے کی ذمہ داری سرمایہ کاری کونسل کے سپرد

نئی منڈیوں کو ٹارگٹ کرنا

برآمدات میں اضافہ شروع کرنے کے لیے، توقیر الحق نے آسان موقع پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا، جس کی شروعات دولت مشترکہ کی آزاد ریاستوں (CIS)، مشرق بعید اور افریقہ کی منڈیوں سے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمپنیاں پہلے ہی ویتنام اور فلپائن جیسے ممالک میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور افریقی ممالک میں قابل ذکر صلاحیت موجود ہے جہاں مارکیٹ میں داخلہ نسبتاً آسان ہے۔

تاہم، انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت کو ان خطوں میں بینکنگ چینلز سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لین دین کو آسان بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا، ’سی آئی ایس اور افریقی ممالک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بینکنگ چینلز کو بہتر بنانا ہے۔ حکومت، وزارت تجارت اور دفتر خارجہ کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہیے‘۔

توقیر الحق نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان چیلنجوں پر قابو پا کر اور حکومت اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے درمیان تعاون کو بڑھا کر، پاکستان نمایاں برآمدی صلاحیت کو کھول سکتا ہے اور زیادہ برآمدات پر مبنی معیشت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

pakistan economy

forex

TAUQEER UL HAQ

Pakistani Pharma Industry

Chairman of the Pakistan Pharmaceutical Manufacturers’ Association (PPMA)

Pharmaceutical Exports