میمز کی بھرمار کو ماحول کیلئے خطرناک قرار دے دیا گیا
سائبر اسپیس کے ماہرین نے غیر معمولی تعداد میں بنائی اور پوسٹ کی جانے والی میمز اور ”ریپلائی آل“ ای میلز کو ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔ میمز کا بیشتر ڈیٹا توانائی کی شدید بھوک رکھنے والے ڈیٹا سرورز پر محفوظ کیا جاتا ہے اور ایک بار استعمال کے بعد اُسے پھر کبھی استعمال نہیں کیا جاتا۔
دنیا بھر میں میمز اب عمومی رجحان میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ میمز کے ذریعے پیغام، تنقید، تمسخر یا طنز کو بہت تیزی سے پھیلا جاتا ہے۔ جب میمز متعارف ہوئی تھیں تب لوگوں نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی یہ اسٹوریج کیپیسٹی پر بھی اثر انداز ہوں گی۔
محققین نے بتایا ہے کہ میمز کی شکل میں محفوظ کیا جانے والا ڈیٹا دراصل ڈارک ڈیٹا ہے یعنی یہ ایک بار استعمال کیے جانے کے بعد دوسری بار استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بھی میمز، لطیفے یا فلمیں ہم شیئر کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی ڈیٹا سینٹر میں محفوظ کیا جاچکا ہوتا ہے۔
برطانیہ کی نیشنل گرڈ نے بتایا ہے کہ 2030 تک میمز، لطیفوں اور فلموں کے ڈیٹا سینٹر ملک کی 6 فیصد تک بجلی خرچ کر رہے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کو بہتر بنانے کی کوششوں کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ جنک ڈیٹا سے کس طور نمٹا جاتا ہے۔
لوبورو یونیورسٹی میں اسٹریٹجی کے پروفیسر ایان ہاجکنسن نے ماحول پر ڈارک ڈیٹا کے منفی اثرات پر تحقیق کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ اس نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے حوالے سے حکمتِ عملی پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنا پروجیکٹ دو سال قبل شروع کیا تھا۔
ایان ہاجکنسن کو تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے کاروباری ادارے جو ڈیٹا تیار کرتے ہیں اُس کا 68 فیصد ایک بار استعمال ہونے کے بعد پھر کبھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ پرسنل ڈیٹا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ ڈیٹا بنیادی طور پر کاربن نیوٹرل ہوتا ہے یعنی یہ توانائی صرف نہیں کرتا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ جو بھی تصویر یا سوشل میڈیا پوسٹ ہم تیار کرتے ہیں وہ توانائی صرف کرتی ہے۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ڈیٹا سینٹر بہت بڑے پیمانے پر توانائی صرف کرتے ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارجین لکھتا ہے کہ کوئی ایک میم کرہ ارض کو تباہ نہیں کردے گی لیکن کروڑوں میمز جن ڈیٹا سینٹرز میں ہیں وہ بڑے پیمانے پر توانائی صرف کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کرہ ارض کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
کلاؤڈ آپریٹرز اور ٹیک کمپنیاں لوگوں کو جنک ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے سے روکتی ہیں کیونکہ جتنا زیادہ ڈیٹا وہ محفوظ رکھتے ہیں لوگ اُنہیں اُتنی ہی زیادہ ادائیگی کرتے ہیں۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اُس ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ادائیگی کر رہے ہیں جس کے بارے میں خود اُنہیں بھی کچھ معلوم نہیں۔ ہمیں خود بھی اندازہ نہیں کہ ڈارک ڈیٹا کو محفوظ رکھنے پر کتنی توانائی خرچ ہو رہی ہے اور اِس کے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.